Tuesday 8 October 2019

مرد کی نازک اَنَا

میری منگنی میرے خاندان کے ایک بہت ذہین اور مال دار نوجوان سے کردی گئی ۔ مجھے پڑھنے کا شوق تھا اس لئے میں نے شادی سے پہلے تعلیم مکمل کرنے کی شرط عائد کردی۔  پہلے پہل تو میرے منگیتر نے کوئی اعتراض نہ کیا مگر چھ ماہ بھی نہ گزرے تھے جب انہیں شادی کی جلدی ہونے لگی ۔ 
میری ہونے والی ساس مجھے اتنا زیادہ پسند نہ کرتی تھیں اور اس کا سبب یہی تھا کہ میرا منگیتر ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ اپنے خاندان سے کسی کو بہو بنا کر لائیں لیکن ان کے بیٹے کا دل مجھ پہ آگیا تھا اس لئے وہ اپنی ضد پہ اڑا رہا ۔ 
میری طبیعت میں انکساری تھی اس لئے ان کی دولت نے مجھے کبھی متاثر نہ کیا تھا۔ جب میری منگنی ہوئی تو میرے اپنے خاندان کی بے شمار لڑکیاں جل گئیں اور ان کی مائیں ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرنے لگیں کہ کاش ان کی بیٹی ایسے مال دار گھرانے سے منسوب ہوئی ہوتی ۔
منگنی پہ مجھے سونے کے زیورات اور دنیا بھر سے قیمتی کپڑے ساڑھیاں اور دیگر سامان تحفتا دیا گیا ۔جب کوئی مجھے کہتا کہ یہ سیٹ بہت خوبصورت ہے تو میں کہتی اچھا تو آپ لے لیں اگر آپ کو ایسا پسند ہے ۔ لوگ میری فیاضی پہ حیران بھی ہوتے اور بعض لوگ مجھے بیوقوف بھی کہتے تھے ۔ لیکن سچ یہی ہے کہ مجھے مادی چیزیں کبھی متاثر نہ کرتیں تھیں ۔ میرے دل میں اس وقت میرے منگیتر کے لئے کوئی جذبات نہ تھے بس جیسے میرے والدین نے فیصلہ کیا میں نے خاموشی سے قبول کرلیا۔
میرے سسرال والے دوسرے شہر رہتے تھے اور منگنی کے بعد انہوں نے 3سال کے لئے مجھے اجازت دی کہ میں اپنا گریجویشن مکمل کرلوں ۔ اس دوران میرے منگیتر بنا مجھے بتائے میرے لئے شاپنگ کرتے رہے۔ 
ایک روز میرے دروازے پر پھول اور چاکلیٹ لئے کورئیر سروس کا اہلکار کھڑا تھا ۔ تو دو دن بعد پھولوں کے ہمراہ میرے لئے کوئی سوٹ بھجوارہے ہوتے ۔ چند روز تو میں نے قبول کیا پھر اپنی امی سے کہلوایا کہ مجھے بھائیوں کے سامنے ایسے گفٹ وصول کرتے شرم آتی ہے اس لئے مت بھیجا کرے ۔ 
امی نے یہ بات تو کہہ دی کہ زیادہ گفٹ نہ بھیجیں ابھی تو صرف منگنی ہوئی ہے لیکن میرے منگیتر اور ان کی امی نے بہت برا منایا ۔ کچھ روز انہوں نے گفٹ نہ بھجوائے لیکن پھر خط آنے لگے ۔ محبت بھرے خطوط میرے لئے ایک نیا عذاب تھا۔ میرے حسن اور خدوخال کا کھل کا اظہار تھا ان میں۔ مجھے خوف آنے لگا کہ کسی روز میرے بھائیوں نے یا ابو نے اگر کوئی خط پڑھ لیا تو کیسی سبکی ہوگی ۔ اس لئے پھر ایک بار میں نے امی سے کہلوا بھیجا کہ ایسے رومینٹک خط نہ لکھیں ۔ اس کے بعد نہ خط آئے اور نہ کبھی وہ خود آئے ۔ چند ماہ گزر گئے اور پھر سنا کہ میری شادی کی باتیں چل رہی ہیں ۔ میں نے احتجاج کیاکہ میں نے ابھی صرف  ایف ایس سی کیا ہے ابھی مجھے مزید پڑھنا ہے لیکن میری ہونے والی ساس نے پیغام بھیجا کہ اتنی مال و دولت والے خاندان کی بہو بننے والی نہ بھی پڑھے تو کیا قیامت آجائے گی ہم نے کون سا نوکری کروانی ہے اور اگر پھر بھی پڑھنے کا بہت شوق ہوا تو شادی کے بعد دونوں بیرون ملک اعلی تعلیم کے لئے چلے جانا ۔ 
ایک سال بھی نہ گزرا تھا منگنی کو جب میری شادی بہت دھوم دھام سے کردی گئی ۔ میں خوش تو نہ تھی لیکن اب اسے خدا کی رضا سمجھ کر خاموش رہی۔
شادی کے روز میرے شوہر کی کلاس فیلوز اور گرل فرینڈز بھی ان کے ساتھ ڈانس کررہی تھیں ۔ مجھے تو کوئی فرق نہ پڑا لیکن میرے ابو نے بہت برا محسوس کیا اور پھر میرے گھر والوں نے محسوس کیا کہ میرے سسرال والوں کا رویہ بھی ان کے ساتھ آج کچھ مناسب نہیں۔ 
جب رخصتی ہورہی تھی تو میرا دل بہت گھبرایا اور میں بہت روئی ۔ میرے شوہر کو یہ بات بہت ناگوار گزری اور ان کے چہرے کے تاثرات دیکھ کے مجھے جلدی جلدی رخصت کردیا گیا ۔
میں اپنے والدین کی پریشانی سمجھ سکتی تھی لیکن اب خود کو بے بس محسوس کررہی تھی ۔ ایک عورت ایسے وقت کر بھی کیا سکتی تھی ۔ ہم جہاز کے ذریعے دوسرے شہر آگئے جہاں میرے شوہر کے گھر یعنی میرےسسرال پہنچ کر بہت دیر تک میری ساس نے لمبی چوڑی رسمیں کیں اور جب میں بہت تھک گئی تو مجھے میرے کمرے میں چھوڑ آئے ۔ 
میں عالی شان کمرے میں پھولوں کی سجی سجائی سیج پر اپنے شوہر کا انتظار کررہی تھی۔لیکن وہ نہ آئے ۔ رات گزرتی رہی میں بیٹھی بیٹھی تھک گئی ۔ تنہا تھی ۔ پیاس لگ رہی تھی ۔ بھوک بھی لگ رہی تھی کیونکہ شادی کی گہما گہمی اور ماں باپ کی اداسی دیکھ کر میں کچھ بھی کھانے سے قاصر رہی ۔ اب کمرے میں تنہا بھوکی پیاسی بیٹھی تھی اور کسی نے  آکر مجھے پوچھا تک نہیں۔
صبح کا وقت تھا جب میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور میرے شوہر کمرے داخل ہوئے ۔ میں تھکاوٹ سے بے حال تھی اور کچھ نیند میں جا چکی تھی ۔ 
میں جلدی سے سنبھل کر پھر سے دلہن والی پوزیشن میں بیٹھ گئی ۔ میرے شوہر نے ایک طرف رکھے میوزک پلیئر کو آن کیا اور پھر وہ میرے پاس آئے۔
"کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے ۔۔۔۔ " کمرے میں گانے کی آواز گونجنے لگی۔جب گانے کے بول میں گھونگھٹ اٹھانے کا ذکر آیا تو انہوں نے گانے کے بول ساتھ میرے چہرے سے گھونگھٹ اٹھایا ۔ میں نے شرما کر مزید سر جھکایا تو انہوں نے میرے چہرے کو چھو کر میرا منہ اوپر کیا۔ میں نے نگاہیں اٹھائیں تو وہ پوری دیوانگی سے مجھے دیکھ رہے تھے ۔ حیا سے میری نگاہیں پھر جھک گئیں۔وہ بہت خوبصورت مگر تھکے ہوئے نظر آرہے تھے۔ وہ آگے بڑھے اور جیسے جیسے گانے کے بول چھونے کا ذکر کرتے وہ یونہی مجھے چھونے لگے ۔ پھر انہوں نے میرے بدن سے لباس الگ کرنا شروع کردیا۔ 
رات بھر انہوں نے مجھے سر سے پاوں تک دیوانوں کے طرح چوما۔ صبح جب میں غسل کرنے لگی تو میرے سفید نازک بدن پہ ان کی دیوانگی اور پیار کے نشان مجھے پریشان کررہے تھے کہ انہیں کیسے دوسروں کی نگاہوں سے چھپاوں گی۔ 
عورت کے بدن پہ نشان ہوں یا کردار پہ داغ ، ہمارا معاشرہ دونوں صورتوں میں اس کو جینے نہیں دیتا جب کہ اس کا موجد مرد ہمیشہ بری الذمہ رہا۔
میں جب نہا کر واپس کمرے میں آئی تو وہ کمرے میں نہ تھے ۔ میں نے سوچا کہ شاید اٹھ کر نہانے چلے گئے ہوں ۔ میں نے دوسرے دن کے کپڑے نکالے اور تیار ہونے لگی ۔ اچانک میری نظر بیڈ پہ پڑے سفید لفافے پر پڑی۔ 
میں نے کانوں میں جھمکے ڈالتے ہوئے لفافہ اٹھایا  تو وہ ایک کاغذ تھا ۔ پہلے سوچا کہ شاید میرے شوہر کا کوئی کاغذ ہوگا نہ کھولوں لیکن پھر خیال آیا کہ ہوسکتا ہے میرے لئے کچھ لکھ کر گئے ہوں ۔
میرا اندازہ درست تھا ۔ وہ کاغذ کا ٹکڑا میرے لئے ہی تھا ۔ میرے شوہر نے منہ دکھائی دی تھی اور وہ تھی ۔۔۔
طلاق ۔۔۔ طلاق ۔۔۔ طلاق !

No comments:

Post a Comment