ایمبولینس ہسپتال کے سامنے جارکی اور دھگڑ دھگڑ کے ساتھ اگلے چند منٹوں میں مجھے ایک روم میں لا کر چھوڑ دیا گیا میرا منہ سامنے دیوار کی طرف تھا سر کے پچھلی طرف ایلی کے ہلکے ہلکے قہقہے سنائی دے رہے تھے اور پھر مجھے اپنا نام سنائی دیا ۔۔ دیر نہی لگی سمجھنے میں کہ کیا باتیں ہورہی ہیں۔
ایلی اور ثناء اب میرے پاس تھیں اور ایلی کی کزن جو میرے ساتھ آئی تھی اب باہر جاچکی تھی۔ ہئے شوگر۔۔ ایلی نے ایک آنکھ دبا کر مجھے چھوڑتے ہوئے کہا۔۔ یہ منڈے تو پوچھے ہی جارہے تھے کہ یہ کدھر سے آئی ہے ۔۔ ہاہاہا ۔۔ ایلی اپنے انگریزی پنجابی ہے میں جملے پھینکنے میں مصروف تھی اور میں جو پہلے ہی حمزہ کی سفاکی کا سوچ کر اس حال کو جا پہنچی تھی اب تپنے لگی تھی۔۔ ثناء نے بھانپ لیا اور ایلی کو تقریبا دھکے دیتے ہوئی باہر لے گئی۔۔ ہم ڈاکٹر کا پتا کرتے ہیں اور دونوں وہاں سے روفو چکر ہوگئیں. کچھ دیر میں ڈاکٹر نے آکر معائینہ کیا کچھ ٹیسٹ لکھے اور ہمیں گھر جانے کی اجازت مل گئی۔
راستے میں ایلی کچھ خاموش تھی پھر لگا جیسے وہ کچھ کہنے کی کوشش میں ہے۔ شوگر۔۔۔ اور ایک لمبا وقفہ کے بعد پھر بولی۔۔ تمہیں اس طرح کا دورہ پہلے بھی پڑا ہے کبھی ؟ وہ مسلسل سامنے دیکھ رہی تھی البتہ اس نے ہونٹ بھینچ رکھے تھے جس سے اس کی گھبراہٹ کا اندازہ ہو گیا تھا ۔ اف خدایا۔۔۔ ایلی تم نے کیا سوچا کہ مجھے کوئی بھوت کا اثر ہوگیا؟ ایلی نے یکدم مجھے دیکھا اور میری ہنسی نکل گئی ۔۔ وہ سچ مچ یہی سمجھی تھی اور اس وقت اس کی ہوائیاں یہ سوچ کر اڑ رہی تھیں کہ رات ہم اس کے نئے گھر پہ گزاریں گے تاکہ گھر کو مکمل طور پر استعمال کے قابل بنا دیا جائے اور شادی کے بعد ان دونوں کو مشکل نہ ہو۔ میں نے پیچھے مڑ کر ثناء کو دیکھا تو حیرت انگیز طور پر میری بہن بھی اس حوالے سے مجھے مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ میں نے اسے بے یقینی سے گھورا تو وہ بول پڑی۔ میں نے سنا ہے کہ سمندر پہ سے کنواری لڑکی گزرے تو ایسا ہو بھی سکتا ہے کہ کوئی جن ون یا کوئی پری اس کی عاشق ہو جاتی ہے اور پھر وہ اس کے ساتھ ہی چمڑی رہتی ہے ۔۔ اور شوگر تمہارے تو بال بھی اتنے۔۔۔ لمبے ہیں ایلی نے میرے گود سے گرتے لمبے بالوں کی طرف اشارہ کرتے کہا ۔ اف توبہ ۔۔۔ تم لوگ تو پاگل ہو ۔ بھئی تھکاوٹ سٹریس اور ٹھنڈ تھی اس پر تمہارا گھر اونچائی پر ہے تو کچھ آکسیجن کی کمی سے سوتے میں ڈروانا خواب دیکھ لیا اور تم نے چمچ مار مار کے میرے دانت ٹیڑھی کردئے ۔۔ منحوس کہیں کی۔۔ ایلی ہنسنے لگی ۔۔ میں تو سچ میں سمجھی کہ تم بھوت بن گئی ہو۔۔ پھر بہت دیر تک یہ بک بک چلتی رہی گھر اتر کر ایلی نے وہاں سے غیر ضروری سامان کار میں بھرا اور ثناء کو ساتھ لیا کہ رات کھانے کا سامان بھی لے کرآئیں گے اور کچھ برتن بھی لانے ہیں تاکہ کچن چالو ہو۔ مجھے آرام کرنے کا حکم ملا جو یکسر مسترد ہوگیا۔ میں نے کافی بنا کر مگ اٹھایا اور اوپر کمروں میں مہمان داری کے انتظامات کا جائزہ لینے لگی۔ زیادہ تر تو سب شادی کے روز ہی واپس چلے جائیں گے البتہ جو رشتہ دار دور سے آرہے تھے ان کے قیام طعام کا بندوبست آنٹی اور ایلی دونوں کے گھروں میں کرنا تھا اور یہیں ایلی کا جہیز بھی کسی طرف رکھناتھا۔ میں سیٹنگز میں مصروف ہوگئی۔
شام ہوگئی تھی لیکن دونوں ابھی تک نہ آئی تھیں ۔مجھے اکیلے ڈر تو نہی لگا لیکن ایلی کا محلہ بالکل سنسان تھا جہاں ایک طرف شراب خانہ تو دوسری طرف دو گیرج کا فاصلہ اور پھر گھر تھا اور وہ بھی کسی آئرش سکاٹش دکھنے والے جوان کا تھا جو صبح تو نظر نہ آیا کبھی لیکن دن کے وقت اپنی سائیکل پہ سوار روز جاتا تھا اور شام کے وقت واپس آجایا کرتا تھا کبھی اس کے سوا اسے دیکھا ہی نہ تھا ۔ باقی گھر خاصے دور تھے اور سبھی انگش لوگ تھے۔ گھر کے پیچھے ایک خاصا لمبا لان نما احاطہ پڑا تھا جہاں ابھی گارڈن نہی بنوایا تھا البتہ کچھ گلاب اور سبزیاں آنٹی نے خود ہی لگا رکھی تھیں۔ اس کے پیچھے ہائی وے گزرتی تھی اور ایک چھوٹی سی مارکیٹ بھی تھی ۔اسی لئے آنٹی بڑے فخر سے بتایا کرتی تھیں کہ انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کو سب سے مہنگے علاقے میں گھر لے کر دیا تھا۔ یہ بھی عجیب دوڑ تھی یہاں۔۔ دوسروں کو دکھانے کیلئے بہت سا غیر ضروری خرچہ کرتے ہیں۔
دروازے پر دستک ہوئی تو میں نے آئی کے ذریعے باہر دیکھا۔ ایلی کا لمبا ناک سامنے نظر آیا تو میں نے دروازہ کھول دیا ۔ پکڑو پکڑو۔۔ اور میرے بازو برڈ بن کیک اور کروسن سے بھر گئے ۔ اچھا تو اب ہم یہیں ہیں ۔ کچن کا تقریبا سارا ہی سامان آگیا ۔ ابھی کیا لائی ہو بھوک لگ رہی ہے ۔ میں نے سب کچھ کاونٹر پر انڈیل دیا اور ڈائننگ پر رکھے برتن پٹولنے لگی۔ تمہارے لئے فش اینڈ چپس لائی ہوں ابھی ابھی لئے فریڈی سے۔۔ میں نے جھٹ سے اپنے فش اینڈ چپس ٹرے میں رکھے اور فریڈی کے نعرے لگاتی ہوئی ٹی وی کے سامنے جا بیٹھی ۔ دونوں کچن میں سامان لگانے لگیں اور میں اس وقت کی سب سے مشہور فلم ایلین دیکھنے بیٹھ گئی ۔ فریڈی ظالم کے ہاتھ کا ایسا ذائقہ تھا کہ لوگ لائینوں میں لگ کر اس کا آرڈر لیتے ۔ سادہ سا غریب فشر مین جو اب بوڑھا ہورہا تھا کئی سالوں سے اسی جگہ اپنا ٹھیہ لگاتا اور مقررہ ہدف کے بعد اٹھ جایا کرتا ۔ لوگ ترستے رہتے لیکن فریڈی جب ایک بار اٹھ جاتا تو پھر کوئی لالچ یا دھمکی اسے واپس نہ بٹھا سکتی تھی ایک بار چند نوجوانوں نے بئیر کے ساتھ اس سے فش اینڈ چپس بنانے کو کہا انکار پر انہوں نے اسے مارا پیٹا لیکن پولیس کی بروقت آمد پر اس بوڑھے فریڈی کی جان بچ گئ اور لڑکے جیل میں ڈال دئے گئے ۔ ایلی کچھ زیادہ نہ جانتی تھی لیکن میں ضرور ارد گرد سے معلومات لینے کی کوشش کرتی کیونکہ مجھے اس بوڑھے پہ ترس آتا تھا کہ اب اسے آرام کرنا چاہیے اور اسکی اولاد کو اس کی خدمت کرنی چاہیے لیکن کبھی کسی کو اس کے ساتھ نہ دیکھا تھا۔ پھر ایک روز مجھے موقع مل گیا جب ہم نے دوسرے شہر جانا تھا اور ہائی وے پہ کار اتارنے سے پہلے کچھ دیر سروس اسٹیشن پر اسکے ٹائر وغیرہ چیک کروا رہے تھے ۔ فریڈی کے پاس زیادہ رش نہ تھا سوچا موقع اچھا ہے فش اینڈ چپس بھی لے لوں اور کچھ کوشش کرکے فریڈی سے بھی معلوم کرو ں کہ وہ کون ہے؟
میری باری فورا ہی آگئی تھی اور میرے پیچھے ابھی تک کوئی اور گاہک نہی آیا تھا ۔ اس نے مجھے مسکرا کر دیکھا تو میں بھی مسکرا دی میرے فش اینڈ چپس پیک کرتے ہوئے اس نے کچھ ایکسٹرا ڈال کر مجھے شرارت سے آنکھ ماری۔ میں ہنسنے لگی اور فریڈی کا خوشگوار موڈ دیکھ کر جھٹ اس سے سوال کر ڈالا ۔ پہلے اس کے فوڈ کی تعریف کی اور میں نے اسے بتایا کہ میں پاکستان جا کر بھی سب کو تمھارےہاتھ کے ذائقہ کا بتاونگی ۔تم کس طرح اتنا مزیدار بنا لیتے ہو جبکہ یہاں بہت سے تمہارے نام سے بیٹھے ہیں مگر تم جیسا نہی بنا سکتے ۔ فریڈی خوش ہورہا تھا کہ میں اس کے فوڈ کی تعریف کررہی ہوں ۔ اس نے مختصر بس یہی کہا کہ میں نے بہت محنت کی ہے پوری ایمانداری سے اور مکمل صفائی سے فوڈ تیار کرتا رہا اور آج تک پہلے دن جیسی محنت کرتا ہوں لوگ نقل تو کرتے ہیں لیکن محنت نہی کرتے اسی لئے بہت جلد ناکام ہوجاتے ہیں۔ میں نے اس کے خاندان کا پوچھا تو کچھ اداس ہوگیا کچھ دیر خاموش رہا مجھے لگا اب فریڈی جواب نہی دے گا اور اس سے پہلے کے غصہ کرے میں اس کے پیسے دوں اور جاوں۔ میں نے رقم اسکی طرف بڑھائی اور بہت خلوص سے اس کا شکریہ ادا کیا خصوصا جو اس نے ایکسٹرا چپس ڈالے وہ اس کی عنایت تھی اور میں اس کے جذبے کی قدر کرتی ہوں۔ فریڈی نے سر اٹھایا اور بولا یہ فوڈ میرے بیٹے کا مستقبل ہے ۔ میں اس کے ساتھ دھوکا نہی کرسکتا ورنہ میرا بیٹا برباد ہوجائے گا ۔ بس فریڈی نے اتنا کہا اور اپنا سامان سمیٹنے لگا ۔ میں بھی احتیاطا پیچھے ہٹ گئی کیونکہ ایسے بوڑھے اور تنہا آدمی سے کیا بعید ۔
ایلی بھی کار تیار کرچکی تھی اور ہم فوری وہاں سے نکل گئے ۔ راستے میں ایلی اسوقت اچھل پڑی جب اسے پتا چلا کہ فریڈی کا کوئی بیٹا بھی ہے ۔ہائے ۔۔ آج تک یہ بات کسی نے نہی بتائی بلکہ میرا تو خیال ہے کہ فریڈی نے شاید تم سے پہلے کبھی اس بات کا ذکر بھی نہ کیا ہو۔
کیسا ہوگا اس کا بیٹا؟ کیا کرتا ہوگا؟ ایلی بہت دیر تک ایسے سوال دہراتی رہی اسے سچ میں بہت حیرت ہوئی کہ جس فریڈی کو وہ آج تک خبطی بڈھا سمجھتی تھی وہ ایک عدد جوان لڑکے کا باپ تھا اور اس کا کوئی گھر بھی تھا۔
دو تین روز بعد ایلی کا گھر مکمل سیٹ ہوچکا تھا شاپنگ مکمل ہوچکی تھی ۔ اس کی چند ایفریکی سہیلیاں اور کچھ انڈین سہیلیاں بھی آگئی تھیں ۔ ان لڑکیوں کو ہم نے ایلی کے بیڈ کے ساتھ والا کمرہ دیا تھا اور دوسرے دو کمروں میں اپنی کزنز اور ایک میں مکمل ہمارا قبضہ تھا۔
اٹھو اٹھو ۔۔ جلدی سے تیار ہوجاو ۔۔ ثناء نے میرے لحاف کو اٹھا کر طے کرنا شروع کردیا اور میں شرٹ کے بٹن بند کرتےہوئے نیچے اترنے لگی ۔۔اب کیا ایمرجنسی ہوگئی؟ میں نے تھکے لہجے میں پوچھا۔ حمزہ کی فلائیٹ لینڈ ہوگئی ائیرپورٹ جانا ہے وہ ادھر نہی آئیں گے ہم سامان لینے جارہے ہیں ۔۔۔ ثناء تیز تیز بول رہی تھی اور میرے اندر سرد لہر پھیل کر اب مجھے مکمل سرد کر چکی تھی۔
تم اور ایلی چلے جاو ۔۔ میں ڈھولکی کے لئے انتظامات کر لوں۔ میں نے بالوں کا جوڑا باندھتے کہا۔ نہیں نہیں ۔۔۔ مجھے ائیرپورٹ پر مسئلہ ہوگا اگر انہوں نے لاؤنج میں نہ جانے دیا تو تم ہی کوئی طریقہ کروگی۔ حمزہ کی کونیکٹنگ فلائیٹ ہے وہ باہر نہیں آئیں گے ۔ تم ہی جاو گی بیگ لینے ۔
منہ ہاتھ دھو کر میں کچن کی طرف گئی تو کافی کا مگ لئے ثناء مجھے کچن سے باہر کو دھکیلنے لگی ۔ کپڑے بدلو اور کار میں گھسو ہمیں فوری پہنچنا ہے ۔۔ میں ابھی پلٹی بھی نہ تھی کہ میرے کندھے پہ ایلی نے پینٹ رکھی ۔۔ استری کردی ہے جاو پہنو اور جمپربھی ادھر ہی پڑا ہے ۔۔ ہلڑ بلڑ میں میں تیار ہوکر نیچے آگئی اور ابھی لانگ شوز ہاتھ میں ہی تھے کہ وہ دونوں کار اسٹارٹ کرچکیں ۔۔ کار میں بیٹھ کر پہننا دیر ہوگئی۔ اور میں شوز ہاتھ میں لئے کار میں جا بیٹھی اور ساتھ ہی ایلی نے تیز سپیڈ سے گاڑی سڑک پر ڈال دی ۔ شوز پہن کر میں نے ثناء سے اسکارف پکڑا اور سر پہ لپیٹا ۔کافی ابھی گرم تھی ایک چھوٹا سا بن بھی ثناء نے میرے ناشتے کےلئے اٹھا لیا تھا۔ تم دونوں جب اٹھی تھیں تبھی جگا دیتی مجھے ۔۔ میں نے شکوہ کیا تو ایلی بولی۔ اٹھتے ہی جگا دیا تھا تمہیں بس ہم نے ناشتہ کرلیا اور تم کررہی ہو۔ تو ایسی کیا ایمرجنسی تھی وہ بیگ جمع کروا جاتے ہم بعد میں اٹھا لیتے ۔ میں نے کافی کا گھونٹ اتاتے ہوئے ثناء کو دیکھا۔ اچھا اور امی سے لتر کھاتے۔۔ وہ تیز لہجے میں بولی ۔۔ ایلی ہنسنے لگی۔۔ اف آنٹی تو حمزہ کا اتنا خیال کرتی ہیں کہ لگتا ہے جیسے انہی کا بیٹا ہو۔۔ میں بدستور کافی اپنے اندر انڈیلنے میں مصروف رہی اور سوچتی رہی کہ ایسا کونسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ ان کا اور میرا آمنا سامنا نہ ہو ۔ مجھے ان سے نفرت کا احساس ہونے لگا تھا ۔ ایسا لگتا تھا کہ جسطرح انہوں نے مجھے زندگی سے نکال دیا اب میں بھی ان کو بھولنا چاہتی تھی۔
ائیرپورٹ پر ایلی نے مجھے اور ثناء کو اتارا اور خود پارکنگ کی طرف چلی گئی ہم نے سامان لے کر ادھر ہی آنا تھا اور وہ کار میں ہی بیٹھی رہے گی تاکہ رش میں پھنسے بنانکل جائے۔
ہم دونوں مطلوبہ ٹرمینل کی طرف چل پڑے ۔ کچھ ہی دیر میں فلور انچارج سے رابطہ ہوگیا اور اس نے بتایا کہ سامان دے کر حمزہ واپس جہاز میں جا چکا ہے ۔ ثناء کچھ حیران سی ہوئی کہ ایسا تو حمزہ نے کبھی نہیں کیا کہ بنا ملے ہی چلے جائیں لیکن میں قدرے پرسکون تھی کہ اچھا ہوا جو حمزہ سے سامنا نہیں ہوا۔
سامان ٹرالی پر رکھا اور میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا میرے دائیں طرف کوئی کھڑا تھا ۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے بال کان کے پیچھے کئے تو مجھے شدت سے کسی نظر کامیرے چہرے کو گھورنا محسوس ہوا ۔ مجھے عجیب سا خوف تھا کہ پلٹ کر دیکھا تو ؟
Monday, 22 January 2018
سرد مہری
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment