Tuesday, 30 January 2018

قومی ائیر لائن کی آخری سانسیں

پی آئی اے وہ بہترین ادارہ تھا جس نے دنیا میں پاکستان کی پہچان اور عزت کروائی ۔جہاں دنیا کی کوئی فلائٹ نہیں جاتی تھی یہ وہاں بھی اپنے جہاز اور ماہر پائلٹ بھجوایا کرتے۔ دنیا کے خطرناک ترین ہوائی اڈوں پر صرف پی آئی اے کے پائلٹ ہی جہاز اتارتے اور دنیا کو ایسا اعتماد تھا کہ بس نام ہی کافی ہے کی مثال قائم تھی۔سعودی ائرلائن کی ٹرینگ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے پی آئی اے سے ٹرینگ لی اور بہت فخر محسوس کیا۔ ہم نے اس کا وہ سنہری دور بھی دیکھا جب اس کے کھانے لباس سروس اور جہازوں کو دنیا میں اول درجہ معیار کے ایوارڈ ملتے اور ہم آج یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اسوقت پی ائی اے کسی خاص منصوبہ کے تحت ختم کردی گئی ۔پہلے بھی اس کو بے تحاشہ لوٹا جاتا تھا مگر یقین جانئے ۔۔ اس لوٹنے میں اور اس جان بوجھ کر اس کو تباہ کرنے میں بہت فرق ہے ۔ مشاہد اللہ اس وقت پیاسی یونین کے صدر تھے بے دریغ وسائل کا استعمال ۔۔ اسٹاف ان کے گھر کا ملازم بنا رہتا تھا جب چاہیں جہاں سے چاہیں بنا کچھ خرچ کئے حاضر کر دیا جاتا تھا ۔۔۔ کرپشن توتب بھی بہت کی گئی اور صرف مسلم لیگ نے نہیں بلکہ جب زرداری دور آیا تو پیپلز پارٹی نے جاہل اور بد صورت ائیرہوسٹس اور سٹیووڈز کی بھرتی ایسے شروع کردی کہ جیسے ٹاٹ والے سکولوں میں بچوں کو بھرتی کیا جارہا ہو ۔۔ نہ ان لوگوں کو انگریزی زبان کی سمجھ تھی کچھ خاص اور نہ ہی اردو ٹھیک سے بول سکتے تھے اور پھر پہلی دفع ہم نے جہاز کے برتن تک چوری ہوتے دیکھے ٹوائلیٹ کٹ اور کمبل تک یہ جاہل اٹھا کر لے آتے ۔۔ الغرض کیا کیا نہ کیا گیا لیکن پھر بھی ۔۔۔ پی آئی اے نے سروائو کیا یہ اپنے لوٹنے والوں کو بھی کھلاتا رہا اور ان کی زندگیاں سنوارتا رہا ۔
بے شمار افسران نے پی آئی اے کے سر پہ اپنے بچوں کو بیرون ممالک شہریت دلوائی ۔۔ گھر بنوائے اور خاندان کے خاندان دوسرے ممالک میں شفٹ ہوگئے۔ پی آئی اے کی نیک نامی کا اندازہ لگائیے کہ اس زمانہ میں اس کے ملازمین کو پوری دنیا میں کسی بھی جگہ کا ویزہ حاصل کرنا کچھ مشکل نہ تھا بس اپنا سروس کارڈ دکھا کر محض چند دن میں ویزہ حاصل کیا جاتا تھا۔ پھر عام لوگوں نے اسمگلنگ شروع کردی عموما سنگاپور۔ ہانگ کانگ ۔ دبئی ۔ تھائی لینڈ ۔ نیویارک ۔ جدہ اور نیروبی وغیرہ سے سامان لاکر بیچا جاتا اور کچھ نہ کچھ ائیرپورٹ سیکیورٹی والوں اور کسٹم حکام کو بھی دیا جاتا ۔ پھر یہ دھندہ ایسا چلا کہ باقاعدہ اصول و ضوابط طے ہونے لگے ۔اس تمام صورتحال میں نقصان صرف قومی ائیرلائن کی نیک نامی کا ہوا ۔
یہ عام آدمی کی بات ہے افسران با لا کی کرپشن تو آپ تصور بھی نہی کرسکتے کہ کس قدر بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہوئی ۔ عام لوڈرز اور سیکیورٹی کا عملہ بھی مال بنانے والوں شمار ہونے لگا۔ پھر سامان بھی چوری ہونے لگا مسافر منزل کو پہنچ جاتے لیکن سامان نہ پہنچتا اور جب ملتا تو کچھ لٹا پٹا ۔ عام آدمی کی کرپشن نے کچھ لوگوں کو ایک نئی سوچ دی کہ کیوں ناں ہم جہاز ہی لے اڑیں ۔۔کون پوچھے گا؟ اور پھر ایک دن پتا چلا کہ جہاز چوری ہوگیا۔ چور کو سب جانتے ہیں لیکن اپنے گریبان صاف ہوں تو کسی پہ ہاتھ ڈالیں۔شاہد خاقان عباسی کی  ائیر بلیو کو عوام نے کاروبار کے لئےبہت جگہ دی لیکن اس کے مالک کی ہوس نے پی آئی اے کو ہی نگل لیا ۔ اب ہماری قومی ائیر لائن آخری سانسیں لے رہی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ کسی کو درد بھی نہیں کیونکہ بحثیت قوم ہمارا احساس تو پہلے ہی دم توڑ چکا تھا اب نشان باقی ہیں جو مٹانے کی تیاری ہے۔
پی آئی اے نے بہت سے حادثات دیکھے ۔بہت سی جانیں گنوائیں لیکن عزت قائم رکھی ۔ کئی بار طیارہ ہائی جیک ہوا لیکن ضمیر نہ جھکے۔ بیسیوں بار کریش لینڈنگ ہوئی لیکن فرض کی ادائیگی میں کمی نہ رکھی گئی ۔ دنیا بھر میں ہماری غیرت کا نشان سمجھی جانے والی ہماری ائیر لائن کی اس بد حالی پہ خود دنیا بھی حیران ہے ۔ 14000 ملازمین اور 30 سے زائد جہاز جو دنیا کے ہر خطہ کو چھونے کی اہلیت رکھتے تھے۔ آج چند ضمیر فروشوں کے ہاتھوں بربادی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment