Wednesday, 7 February 2018

شادی

اسی لمحے ائیرپورٹ سیکیورٹی نے ہمیں وہاں سے ہٹنے کو کہا کہ دوسری فلائیٹ آگئی ہے اور اس کا سامان لگج بیلٹ پر ڈالا جارہا تھا ۔ میں نے جلدی سے ٹرالی کو پُش کیا اور کچھ آگے جاکر ثناء کو ڈھونڈنے لگی جو ابھی چند لمحے قبل میرے ساتھ کھڑی تھی ۔ کچھ دیر ادھر ادھر دیکھنے کے بعد میں باہر کی طرف چل پڑی۔ گیٹ کے پاس ثناء مجھے مل گئی ۔
ایلی کار لے آئی اور ہم واپسی کے لئے نکل گئے ۔ ثناہ نے ابھی تک بتایا نہ تھا کہ وہ حمزہ سے ملی کہ نہی ۔ تم کہاں چلی گئی تھیں ؟ میں نے ثناء کو کریدنا چاہا ۔ ادھر ہی تھی ۔مجھے لگا ثناء کچھ چھپانے کی کوشش کررہی ہے شاید وہ بتانا نہیں چاہتی کہ حمزہ سے ملاقات ہوئی ہے ۔ لیکن وہ کیوں چھپائے گی ؟ البتہ مجھے یقین ہے کہ وہاں حمزہ ہی تھے جو میرے چہرے کو دھیان لگائے دیکھتے رہے اور میرے چونکتےہی کہیں غائب ہوگئے تھے۔ ذہن الجھ گیا کہ سفاک جزبوں والا شخص کیونکر مجھے دیکھے گا؟ وہ اس روز کی لڑائی کے بعد کبھی مجھ سے نہ ملے تھے اور نہ ہی کبھی پوچھا ہی۔ انہوں نے اپنے انداز سے واضح کردیا تھا کہ ان کی اَنَا کے سامنے کسی کی بھی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ہماری بچپن کی محبت جو کسی بھی طرح کے مفاد اور غرض سے پاک تھی انہوں نے اسے یکسر بھلا دیا مجھے ایکدم تنہا کردیا۔میں نے تو کبھی حمزہ کے سوا کسی کو دوست مانا ہی نہ تھا ۔ ایسی کوئی سہیلی نہ تھی جس سے میں اسطرح ہر بات کر لیتی۔وہ بھی ہر بات مجھے ہی بتاتے تھے اور کبھی جھجھک نہ ہوئی ۔یہ گزشتہ چند ہفتے تو ہمارے درمیان ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا جو اجنبیت نفرت اور سردمہری پر مبنی تھا۔ میں دکھی تھی بہت رنج تھا کہ اب تک میں کیسے دھوکاکھاتی رہی جسے ایسا اچھا جانا وہ بالکل بھی ویسا نہیں ۔
ہم کہاں جا رہے ہیں ؟ میں نے ایلی کو گاڑی مطلوبہ ٹریک سے شفٹ کرتے دیکھا تو پوچھا۔ امی کو لینے جارہے ہیں ۔ ثناء نے جواب دیا تو مجھے ان دونوں پہ غصہ آنے لگا۔ یہ تم لوگوں کو مسئلہ کیا ہے ؟ مجھے کیوں نہی کوئی بات بتاتی پہلے ؟ ایلی ہنسنے لگی ۔۔ شوگر ۔۔۔ تم بہت ایزی گرل ہو بالکل بھی پرابلم نہی کرتی تو ہم بھی ریلیکس ہیں خود ہی فیصلہ کرلیتے ہیں ہمیں پتا ہے تم مائینڈ نہی کروگی۔ ایلی نے کمال مہارت سے بات نمٹادی۔ زیادہ چالاک نہ بنو ۔ مجھے کم از کم کوئی کپڑے تو اٹھانے دیتی اب اچھا لگے گا سارے خاندان میں اس حلیے میں پھرونگی ۔۔ او کم آن شوگر ۔۔ ایلی نے قہقہ لگایا اورثناء بھی ہنسنے لگی ۔ شوگر تم اتنی سمارٹ لگتی ہو اسطرح ۔۔۔ میں نے بیچ میں بات کاٹتے کہا۔ چپ کرو ایلی ۔۔ ادھر ہم اکیلے ہیں تو میں ریلیکس ڈریسنگ کر لیتی ہوں لیکن خاندان میں جانے سے پہلے آداب کا خیال رکھنا چاہیے ۔۔۔ اوہو ۔۔ ایلی نے چڑ کر بات کاٹی ۔۔ پہلے نیلی کی طرف چلے جائینگے تم چینج کرلینا کونسی قیامت آگئی ۔بحرحال ہم لڑتے مرتے تقریبا دو گھنٹہ کی مسافت کے بعد شہر میں داخل ہوئے اور سیدھے کزن نیلی کے گھر پہنچے ۔ ایلی نے مجھے نیلی کی الماری دکھائی اور میں نے ایک ہلکا سا سوٹ سلیکٹ کرکے بدل لیا۔ نیچے اتری تو کچن سے کباب کی خوشبو بھوک چمکانے لگی۔۔ چائے کے ساتھ کچھ سنیکس لئے۔۔ پھر امی کی طرف نکل گئے ۔
امی مامی دادو سبھی رات دیر تک ایلی سے اس کے منگیتر کی باتیں کرتے رہے اور پھر ہم سونے کیلئے کزن کی طرف چلے گئے۔ صبح دیر تک سوئے اور دن میں امی کو ساتھ لے کر واپس آگئے ۔
شادی شروع ہوچکی تھی ۔ خوب ہلہ گلہ جاری تھا۔ ایلی کی سہیلیاں تو زبردست ڈانس کرتی تھیں ۔لڑکے والوں کے چاروں شانے چت کردئے اور پہلے دن سے ان کو دبا لیا۔ہم بھی کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتے تھے اور ایلی تو سب سے زیادہ بے قابو ہورہی تھی ۔ کتنی بار پکڑ کر بٹھایا کہ دلہن ہو تھوڑا سا کم ناچو ۔۔ سارے ہی حیران ہوئے جا رہے ہیں کہ یہ کیسی دلہن ہے جو اپنے بیاہ پہ خود ہی ناچے جارہی ہے بلکہ کسی کی باری ہی نہی آنےدیتی۔ اس زمانے میں ابھی اتنا آزادانہ ماحول نہ تھا۔ کچھ نہ کچھ شرم اور روایات کاخیال کیا جاتا تھا۔ لیکن ایلی کی شادی نے سارے نئے رواج قائم کردئے ۔
مہندی والے روز ہم لڑکے کے گھر گئے تو ایلی چھپ کر پیچھے والی سیٹ پہ جا بیٹھی ۔ کچھ دور جاکر ہم پھر واپس پلٹے اور اسے گھسیٹ کر کار سے اتارا۔۔ پھر بھی نہ مانی تو ڈنڈا ڈولی کرنا پڑا اور کسی نے بازو تو کسی نے ٹانگوں سے پکڑ کر گھر میں پھینکا ۔ ایسی شرارتی لڑکی کی شادی کوئی کیسے کرے۔ آنٹی تو ہمارے منہ چوم چوم کر گیلے ہی کر دیتیں کہ ہم نے ان کی جھلی کو سنبھال لیا ورنہ اس کے تماشے ساری زندگی کیلئے خاندان کی زبانوں پہ رہتے۔
ماموں کا لڑکا مسلسل غیر محسوس طریقے سے میرا پیچھا کرتا رہا اور اس کی پسندیدگی کا اندازہ اس کا میرے ساتھ ہر کام میں آگے بڑھ کر مدد کرنے اور میرا خیال رکھنے سے ہوگیا ۔دوسال بڑا تھا اور اپنے گھر میں بھی بڑا بیٹا تھا ۔ مامی تو یوں بھی کئی بار امی سے رشتے کی بات کرچکی تھیں بس میں ہی پاکستان چھوڑنے کو تیار نہ تھی اسلئے مامی کو خود ہی بتا دیا تھا کہ آپ کامی کیلئے کوئی اور لڑکی دیکھیں بلکہ جسطرح کا اس کا مزاج تھا اسے دیسی لڑکی بالکل نہی جچتی بلکہ کوئی گوری دلہن لے آئے اور اسے مسلمان کرکے کچھ گزارہ کرلے ۔ مجھ سے بھی شاید اسی لئے کامی کی بہت بنتی تھی کہ میرے مزاج میں ویسٹرن پن زیادہ تھا اور پھر مجھ میں حسد اور بغض جیسی برائیاں نا ہونے کے برابر تھیں۔ ہر کسی کی خوشی میں خوش رہنا اچھا لگتا تھا۔
مہندی کا فنگشن بہت اچھا ہوا ۔ایلی کے منگیتر کو خوب تنگ کیا ۔وہ غریب بھی ڈر گیا کہ شادی کے بعد ایلی کے جہیز میں ہم بھی شامل تھے جب تک پاکستان واپسی نہ ہوتی۔
شادی والے روز ایلی کو پارلر چھوڑا ساتھ دو انڈین سہیلیاں بھی تھیں۔ سارے رشتےداروں کو ناشتہ کروا کر ہم نے ضروری تمام انتظامات کئے ۔انکل آج اداس تھے میں بار بار ان کو تسلی دیتی کہ کونسا دور جارہی ہے 20 منٹ کی ڈرائیو ہے لیکن باپ کے دل کو کیسے سمجھایا جاتا۔
شادی آنٹی کے گھر تھی پڑوسی کرسچنز نے اپنے طور پر پریئر کی اور ایلی کے لئے دعاکی۔ پھر شراب کی بوتلیں اٹھا لائیں خیر سگالی کے طور پر تو آنٹی نے ہنستے ہوئے انہیں اپنے رواج کے بارے میں کچھ تفصیل بتائی اور شکریہ ادا کیا ۔ البتہ انہیں دعوت دی کہ وہ ساری شادی کو دیکھیں اور انجوائے کریں۔ وہ باقی محلے والوں کے ساتھ کافی دیر تک شامل رہیں اور پھر بارات کے آنے کے وقت کا کہہ کر گھروں کو چلی گئیں۔
سب تیار تھے ۔ میں نے سبز رنگ کا کام والا لہنگا پہنا اور بال کھلے چھوڑ دیئے ۔سادہ سا میک اپ کیا اور ہلکی سی جیولری پہنی۔ البتہ ہائی ہیل کی بہت عادی تھی سو اس روز باوجود بہت کام کے میں نے خاصی ہائی ہیل پہن رکھی تھی ۔ اسی لئے ساری کزنز میں اونچی بھی لگ رہی تھی حالانکہ ہمارے یہاں سبھی کے قد خاصے اونچے ہیں۔پھر بھی اس روز سب کی نگاہیں میرے تعاقب میں تھیں خصوصا میرے کزنز کی ۔ ایک انکل امریکہ کی ایک دور دراز کی اسٹیٹ سے آئے تھے اور ان کے لڑکوں سے پہلی ملاقات تھی ۔ بڑا لڑکا کسی یونیورسٹی میں آخری سمسٹر میں تھا اور اس کی ماما ہماری فیملی سے نہی تھیں انکل بی بی سی میں رپورٹنگ کررہے تھے اور ان کے بھائی مختلف چینلز کے لئے ڈاکیومینٹری بناتے تھے ۔خاصے خوشحال اور بارعب لوگ تھے۔ انکل کے بھائی جو ٹام کروز جیسے نظر آتے تھے ، نے فلم بنانے کے بہانے میری ڈھیر ساری تصاویر لے لی تھیں اور اب میں ان سے چھپنے کی کوشش کررہی تھی کیونکہ اسطرح ان کا گھورنا مجھے بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔میں اس چاکلیٹی ہیرو سے بچتی ہوئی امی کی تلاش میں اندر چلی گئی البتہ مجھے لگا کہ وہ میرے پیچھے ہی اندر آجائیں گے۔
امی کچن میں ایک آنٹی سے کسی بات پر بحث کررہی تھیں ۔میں ذرا قریب گئی ۔ ہائیں۔۔۔ یہ تو ثناء کی شادی کی بات ہورہی ہے۔میں رک کر سننے لگی۔باجی ابھی تو میں نے سوچا بھی نہیں ۔ذرا شادی سے فارغ ہو لینے دیں تو ثناء کے ابو سے مشورہ کرتی ہوں۔ امی نے ان خاتون سے کہا تو وہ جلدی سےبولیں۔ میں کونسا آج ہی شادی کرنے کو کہہ رہی ہوں آپ بھائی جان سے بات کرلیں مجھے یقین ہے انہیں کوئی اعتراض نہی ہوگا آخر اتنا قریبی رشتہ ہے اور نادر بھی بہت لائق اور کامیاب بچہ ہے ۔ آپ آج ہی بات کریں  تو پھر نکاح کرلیں گے اسی ماہ ۔بس مجھے انکار نہ کیجئے گا ۔۔۔ اور میری ہنسی نکل گئی میں بھاگتی ہوئی باہر کو نکلی کہ ثناء کو بلا لاوں ابھی کمرے کے دروازے میں ہی تھی کہ تیزی کے باعث  کسی کھمبے جیسی شے سے ٹکرا کر سر چکرا گیا، لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے کو گئی اور گرنے ہی لگی تھی تو کسی نے بہت سختی سے بازو سے پکڑ لیا اور زور سے اپنی جانب کھینچا ۔ایک لمحے میں خاندان کے سارے لڑکے ذہن میں گھوم  گئے کہ یہ کونسا ہیرو ہے ؟ میں اس زوردار جھٹکے سے اس کھمبے کے سینے سے جا ٹکرائی جو خاصا مضبوط محسوس ہوا ۔ہائے ۔۔ اتنی ہیل پہن کر بھی میں ابھی کندھے تک ہی پہنچی ۔۔ یہ کون ہے ایسا لمبا چوڑا ؟ میرے دل میں تجسس ابھرا اور میں سر اٹھانے ہی والی تھی کہ وہ فولادی بازو مجھے گھیرنے لگے اور اگلے ہی لمحے ایک مانوس سی مہک میرے حواس پہ چھا گئی۔۔ دل کی دھڑکن ڈرم کی طرح بجنے لگی اور بدن ٹھنڈا پڑگیا ۔۔  حمزہ؟

No comments:

Post a Comment