سول میٹ (حصہ چہارم)
سعدیہ کیانی
حمزہ کو بہت تھکاوٹ تھی۔ ایسی حالت دیکھ کر مجھے ترس آنے لگا ۔ آپ سو جائیں پلیز۔۔ کیسے تھکے ہوئے لگ رہے ہیں ۔ ان کے چہرے کو ہاتھوں میں لیا تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر ہونٹوں پہ رکھ لیا ۔۔۔ پھر چومتے ہوئے بولے ۔ جو خوشی ملی ہے تمہیں حاصل کرکے اس کے بعد اب تھکاوٹ کچھ معنی نہیں رکھتی ۔ آج سکون سے سوؤنگا گزشتہ دو راتوں سے سویا نہیں ۔ حمزہ نے یہ کہتے ہوئے میرا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیا ۔۔۔ اب انہیں یوں چھوڑ کر جانے کا من نہ تھا ۔ تھکاوٹ تو آج سبھی کو تھی اور مجھے تو بہت زیادہ کام کرنا پڑا تھا ایونٹ کے لئے ۔ حمزہ کی تھکن دیکھ کر میں انہیں بیڈ روم تک لے گئی ۔سوچا ان کے شوز اتار دوں تو انہوں نے بازو سے پکڑ لیا اور جھکنے نہ دیا ۔ ہئےے۔۔ پگلی ! ایسے روایتی عورت نہ بنو ۔۔ اور ۔۔کبھی میرے پاوں نہ چھونا ۔ انہوں نے پھر میرے ہاتھوں کو بوسا دیا اور خود سے شوز اتار کر بیڈ پہ لیٹ گئے۔۔ میں نے لحاف ان پہ ڈالا اور ساتھ ہی بیٹھ کر ان کے بالوں کو سہلانےلگی ۔۔ وہ اب بھی مجھے دیکھ رہے تھے ۔۔ سو جائیں ۔۔ میں نے دھیرے سے کہا تو ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے کسی اچھے سے بچے کی طرح آنکھیں بند کر لیں ۔ چند منٹوں میں مجھے احساس ہوا کہ حمزہ سو چکے ہیں ۔ میں آہستہ سے اٹھنے لگی ۔ان کے ماتھے پہ بوسہ دیا اور لحاف درست کرکے اپنے کمرے میں آگئی جہاں ثناء گھوڑوں کا سارا اصطبل بیچ کر سوئی ہوئی تھی ۔
اگلی صبح سورج چڑھنے تک سبھی سوتے رہے ۔ آنکھ کھلی تو گھر میں آنٹی اور امی کی آواز گونج رہی تھی ۔ارے واہ ۔۔ ثناء منہ دھو کر آئی تھی ۔ زبردست بھوک لگی ہے اور امی لوگ مزیدار ناشتہ لائے ہیں ۔ جلدی سے آجاو نیچے ۔ سب ہمارا ہی انتظار کر رہے ہیں ۔ ثناء کمرے سے نکلنے ہی والی تھی تو میں نے پوچھا ۔ حمزہ اٹھ گئے ؟ ثناء پلٹی اور کمر پہ ہاتھ رکھ کر بولی۔اب میرا یہی کام رہ گیا ہے کہ تم دونوں کو ایکدوسرے کی اطلاع دیتی رہوں ۔ اٹھو جاو ۔۔ خود خبر لو اپنے میاں کی ۔ ثناء کمرے سے نکل گئی تو میں نے بھی منہ ہاتھ دھو کر اسی طرح نائٹ سوٹ پہ ہی سکارف لپیٹا اور نیچے پہنچ گئی سب ٹیبل پہ بیٹھے تھے ابھی ناشتہ شروع نہیں ہوا تھا ۔ ہائے گڑیا۔۔ بچے ایسے ہی اتر آئی نیچے ؟ آنٹی نے استفسار کیا ۔ بیٹا اب سہاگن ہے تو اچھے سے تیار ہو جاتی۔۔کچھ زیور پہن لے حمزہ کیا سوچے گا۔ آنٹی بھی انڈین سہیلیوں کے ساتھ رہتے رہتے انہی کے لہجے میں بولیں۔ حمزہ اپنی کمرے سے نکل رہے تھے سن کر ہنسنے لگے۔
اوہو ۔۔ آنٹی شادی کب ہوئی ہے ابھی تو صرف نکاح ہی کیا ہے ۔ کیوں غلط باتوں پہ اکسا رہی ہیں اس کو ۔ ثناء چڑ کر بولی۔ہاں تو نکاح ہی اصل بات ہے باقی تو سب رسمیں ہیں ۔ دونوں کو ۔۔۔۔ ابھی آنٹی بات کررہی تھیں کہ حمزہ نے ٹوکا ۔ ٹھیک کہہ رہی ہے ثناء ۔ ابھی گڑیا کو نارمل زندگی گزارنے دیں ۔ جب تک یہ چاہے ۔ وہ بہت پیار سے مجھے دیکھ رہے تھے ۔ اف یار ۔۔۔ ناشتہ شروع کرو ۔۔ بھوک لگی ہے ۔ اب کہ ثناء کی بجائے ایلی بولی۔
ناشتے کے دوران ایلی اور شمریز بار بار ہمارا شکریہ ادا کرتے رہے کہ ہم نے ان کی شادی کو یادگار بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ناشتہ کے بعد شمریز اٹھ کر باہر نکل گیا کچھ دیر میں واپس آیا تو دو گفٹ پیک اٹھا رکھے تھے ۔ دیکھنے میں لگتا تھا جیسے گھڑی ہے۔ یہ کیا ہے شمریز ؟ یار کیا ضرورت ہے اس سب کی؟ ثناء کچھ شرمسار سی بولی۔ شمریز نے اسے گفٹ تھماتے ہوئے گلے سے لگایا۔ اور میری طرف بڑھا۔ اوہ پلیز شمریز ۔۔۔ میں ناراضگی سے بولیں تو شمریز نے میرے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑنا چاہا۔۔ تم تو بالکل بھی ایسی بات نہ کرو ۔ تمہارے تو دو گفٹ بنتے ہیں ۔ لیکن فلحال ایک ہی لیا ہے دوسرے کا وقت نہیں ملا ۔۔۔ کچھ دیر تکرار کے بعد ہم نے تحفے لئے اور شمریز کا شکریہ ادا کیا ۔ گفٹ کھلے تو گولڈ برسلیٹ میرے لئے اور لاکٹ ثناء کو بہت پسند آیا ۔ ایلی یہ وہی ہے نا؟ ثناء خوش ہورہی تھی کہ وہ ایلی کے ساتھ جب جیولر کے پاس گئے تھے تو ثناء بار بار وہ لاکٹ چیک کررہی تھی جس سے ایلی کو اندازہ ہوگیا تھا اور اسی نے شمریز کو گائیڈ کیا کی مجھے ہاتھوں میں پہننے کی جیولری زیادہ پسند ہے ۔ شمریز ابھی بھی مطمئین نہیں تھا اور پتا چلا کہ ہنی مون ٹرپ پہ وہ دونوں ہمیں اور ایک ایلی کی دوست کو بھی لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حمزہ نے سنا تو ایلی کو اشارہ کرتے ہوئے بولے ۔ کچھ اس غریب کا خیال بھی کر لو ایلی۔۔ حمزہ کا اشارہ میری طرف تھا ۔ ثناء چڑ سی گئی تھی ۔ میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں حمزہ کو اشارہ کیا کہ ایسی باتیں نہ کریں۔ یار حرج تو کوئی نہی اپنی اہلیہ کے ابا سے اجازت لے لو تو لے چلتے ہیں تم کو بھی ۔ حمزہ نے فورا کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے توبہ کی ۔ رہنے دو یار ۔۔ چچا کو تو ہوا بھی نہ لگے کہ میں ایسا سوچتا بھی ہوں۔ اور پھر انہوں نے گہری نگاہ ڈالی مجھے لگا جیسے ایک بار پھر میں ساحل سمندر پہ کھڑی ہوں اور ٹھنڈی ہوائیں مجھے سمندر کی جانب دھکیل رہی ہیں ۔ نجانے کب تک ہم ایک دوجے کی نگاہوں میں گم رہے ارد گرد باتیں ہوتی رہیں پھر سب ٹیبل سے اٹھ گئے ۔ شوگر ۔۔ شوگر ۔۔ اوپر آو ۔۔ بات کرنی ہے۔ ایلی مجھے کندھے سے جھنجھوڑنے لگی تو ہوش آیا۔ حمزہ اب بھی گم سم دیکھے جارہے تھے ۔ اچھا آتی ہوں ۔۔ میں نے گہری سانس لی اور ارد گرد نگاہ ڈالی تو وہاں اب حمزہ کے سوا کوئی نظر نہ آیا ۔ ایلی مجھے بلا کر اوپر چلی گئی ۔ سنیں ۔۔۔ اےے۔۔۔ میں حمزہ کے سامنے آکر کھڑی تھی وہ دیکھ رہے تھے لیکن خواب کی طرح دور کہیں مجھے بانہوں میں لئے اپنے ارمانوں کی سیج سجائے بیٹھے تھے۔ ہممم۔۔۔ کیا کریں مایا ۔۔۔ حمزہ آہستہ سے کھڑے ہوئے اور میں گردن جھکائے کرسی پہ بیٹھے اپنے سول میٹ اور اب دنیا میں بھی وہ میرے میٹ بن چکے تھے ۔دیکھ رہی تھی اب طویل قامت حمزہ کی نگاہوں کے تعاقب میں منہ آسمان کو اٹھانا پڑا۔ مایا؟؟ میں چونک گئی۔۔۔ مجھےیاد ہے حمزہ اکثر جب بہت تھکے ہوتے یا نیند میں اکثر میں نے سنا کہ وہ مجھے مایا کہہ کر بلا رہےہیں۔ ایک بار تو مجھے شک ہوا کہ کوئی اور لڑکی ہے جو ان کے خوابوں میں راج کرتی ہے لیکن انہوں نے کہا کوئی لڑکی نہی اور نا ہی کوئی مایا ہے ۔۔ تمہارے سوا کوئی میری دوست نہیں ۔
آج میرا تعلق ایسا تھا کہ مجھے حمزہ سے پوچھنا پڑا ۔آخر یہ ہے کون مایا؟ میرے چہرے پہ شک کا تاثر کیسا عجیب لگا ہوگا کہ حمزہ کی ہنسی نکل گئی۔۔۔ وہ بے اختیار بڑھے اور مجھے دبوچ لیا ۔۔ ڈھیر سارے بوسے میری آنکھوں اور گالوں پہ لئے تو مجھے میرا دوست حمزہ نظر آنے لگا جو صرف پیار کے جذبے کے تحت ہی پیار کرتا تھا ۔ جسے میری جنس اور وجود سے سروکار نہ تھا بلکہ وہ میری روح کی الفت میں گرفتارتھا۔۔ شوگر ۔۔۔ ایلی کی غصیلی آواز نے چونکا دیا۔
آپ ثناء کے سامنے ایسی حرکات سے پرہیز کریں وہ غصہ کرتی ہے ۔ میں نے حمزہ کے بازوں کا گھیرا کھولتے ہوئے کہا ۔ ایلی بلا رہی ہے اور جلدی سے بھاگ کر سیڑھیوں کی طرف چلی گئی ۔ کیسا سرور ہے ۔ عجیب مزہ ہے یہ چاہے جانے کا۔۔ محبت کا۔۔۔ اظہار کا ۔۔۔ واہ
کب سے انتظار کررہی ہوں ۔ تمہیں تو حمزہ سے ہی فرصت نہیں اب۔۔ ایلی خفا ہونے لگی۔ میں نے جپھی ڈالی اور اس کے گالوں پہ چٹک چٹک پیار دئیے۔۔۔ یار۔۔۔ سو سوری ۔۔ حمزہ کا یہ انداز مجھے بھی ہضم نہیں ہورہاابھی۔ لیکن کل انہوں نے واپس چلے جانا ہے تو پھر ہم اور تم ۔۔۔ مزے ہی مزے ۔۔۔ میں ایلی کو منا رہی تھی ۔ اچھا بتاو ۔۔ چلو گے ہمارے ساتھ ؟ ایلی اب سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی ۔ نہیں یار ۔۔ تمہارا ہنی مون ہے ہمیں کیوں ساتھ کباب میں ہڈی بنا رہی ہو ۔ جاو مزے کرو اپنی زندگی کے یادگار دن گزارو۔۔۔
نہیں ہمیں تو تمہارے ساتھ جانے سے خوشی ہوگی ۔ شمریز کو بھی بہت دل ہے کہ تم دونوں چلو اور میری دوست بھی چلے گی تو تم دونوں کی کمپنی بھی ہوجائے گی۔
کچھ دیر بحث مباحثہ چلتا رہا اور میں نے امی ابو سے مشورہ کے بعد حامی بھرنے کا کہا۔ پھر اس کے ساتھ اسکے شادی والے ڈریسزز سنبھالنے لگی۔
حمزہ کی فلائیٹ تھی اور میرا دل اداس تھا۔ شمریز نے کہا کہ وہ انہیں ائیرپورٹ پر چھوڑنے جائے گا تو میں بھی جا سکتی ہوں۔لیکن مجھے کچھ شرم سی تھی کیونکہ ابو بھی دوسری فلائیٹ سے واپس جارہے تھے ۔ میں ابھی دونوں کا ایک ساتھ سامنا نہیں کرسکتی تھی۔
شمریز کار میں انتظار کررہا تھا اور حمزہ میرے گرد بانہوں کا حصار بنائے کھڑے تھے ۔ مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ نکاح کے بعد رخصتی کے لئے میرا صبر کم پڑ جائے گا اب تو لگتا ہے کہ ۔۔۔
حمزہ لفظوں کی بجائے لمس کا استعمال کرنے لگے ۔ سنو۔۔۔ مان جاو ۔۔ میرے دل کو قرار نہیں۔۔ ان کے ہونٹوں نے چہرے کا مکمل طواف کیا ۔ میں نے ان کے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا ۔۔۔ آپ جانتے ہیں تو کیوں مجھے مجبور کررہےہیں ۔۔ میں ابھی اس نئے بندھن کو سمجھ بھی نہی پا رہی ۔۔۔ سب اتنی جلدی ہوگیا کہ مجھے کچھ پتا نہیں کہ میں کیا چاہتی ہوں۔ حمزہ کے چہرے سے یکلخت مسکراہٹ غائب ہوگئی اور سپاٹ لہجے میں بولے۔۔ اس بات کا کیا مطلب؟ کہنا کیا چاہتی ہو؟ ان کی بانہوں کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔۔ مجھے احساس ہوا کہ میری بات کو وہ سمجھ نہیں پائے ۔۔ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں ۔ ان کے بازو اپنے گرد پھر سے لپیٹ کر میں مزید قریب ہونے لگی۔ ایک پاوں حمزہ کے پاوں پہ رکھ کر ان کے چہرے کے عین سامنے آگئی ۔۔ بانہیں گردن کے گرد لپیٹ دیں۔ان کی حسین آنکھوں کو چوما۔ ماتھے پہ بوسہ دیا اور پھر بہت دیر تک ہم سانسوں میں الجھتے رہے۔۔۔ یہاں تک کے شمریز کی آواز آئی ۔ جو دروازے سے آوازیں لگاتا اندر آرہا تھا ۔ آپ جانتے ہیں میں کیا کہنا چاہتی ہوں ۔۔ میں پیچھے ہٹنے لگی اور شمریز کے یہاں آنے سے پہلے حمزہ سے خود کو الگ کرلیا۔ یار دیر ہورہی ہے اب چلو بھی۔ شمریز کو دھیان نہ رہا کہ ہم الوداعی ملاقات کررہے تھے لیکن جیسے ہی اسے احساس ہوا وہ شرمندہ سا ہوگیا۔اوہ سوری ۔۔۔ وہ جلدی سے پلٹا اور یہ کہتے ہوئے باہر چلا گیا ۔۔ ٹیک یور ٹائم مین۔۔ نو پرابلم۔
اب حمزہ پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور فریفتہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے۔ لگتا ہے جیسے اللہ نے میری عبادتوں کے اجر میں تمہاری قربت لکھ دی ۔۔ سوچتا ہوں کہ اس کی کون کون سی نعمت کا شکر ادا کروں ۔ نا چاہتے ہوئے بھی میں ضبط نہ رکھ سکی اور دو موٹے موٹے سے آنسو میرے گالوں سے پھسل گئے ۔۔۔ سر اٹھایا تو حمزہ کی آنکھیں بھی نم تھیں ۔ سفید رنگت پہ آنکھوں کی سرخی ابھرتی کیسی اچھی لگ رہی تھی۔ وہ سچ کہہ رہے تھے ۔ ہم اس قابل کب تھے کہ اس کی بندگی کا حق ادا کرتے ۔یہ تو اس کا کرم اور فضل تھا جو ہمیں آزمائشوں سے بچا لیا۔ میں آگے بڑھی اور الوداعی ملاقات کرتے ہوئے دھیرے سے ان کے کان میں کہا۔ جائیں ۔۔۔ اور تیاری کریں! حمزہ نے ایک دم سے مجھے کندھوں سے پکڑا اور الگ کرتے ہوئے خوشی سے بولے۔ تمہیں یقین ہے نا کہ کیا کہہ رہی ہو؟ جی ۔۔۔ جو آپ چاہتے ہیں وہی کریں ۔۔۔ میرے جواب سے انہیں تسلی نہ ہوئی۔ میری چاہت تو تم ہو ۔۔۔ مایا تم ۔۔۔ حمزہ پھر سے مجھے نشيؤوں جیسے لگنے لگے۔۔۔ آپ کی فلائیٹ نکل جائے گی جائیں شمریز کب سے انتظار کررہا ہے ۔ اب میں نے جان چھڑانی چاہیی تو وہ سمجھ گئے اور شرارت سے بولے ۔۔ اب مکر نہ جانا ۔۔۔ تمہاری واپسی سے پہلے ہی میں شادی کے انتظامات کروا لونگی اور پھر۔۔۔ میں نے بڑھ کر ان کے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔ بس ۔۔۔ بس۔۔۔مجھے کوئی تفصیل نہی سننی ۔۔جو جی میں آئے کریں۔۔۔ او مائی گاڈ ۔۔ ایلی پتا نہی کہاں سے ہمارے سروں پہ آن پہنچی تھی اور اب کمر پہ ہاتھ رکھے ہمیں گھور رہی تھی۔ میرا میاں باہر بیٹھا سوکھ رہا ہے اور تم دونوں کی فلم کا دی اینڈ ہی نہیں ہورہا ۔ وہ سچ میں بہت غصہ میں تھی ۔ حمزہ نے جھٹ میرے گالوں پہ بوسہ لیا اور تیزی سے باہر نکل گئے ۔ ایلی اب بھی مجھے گھوررہی تھی۔ شرم کرو میری شادی کا چارم چرانے کی کوشش کررہی ہو۔۔ میں نے پریشان ہوکر اس کی شکل دیکھی تو بھاں آہاہا ہا ۔۔۔۔ کرکے اس کی ہنسی نکل گئی۔۔ توبہ ہے ایلی ۔۔ کیسی فضول بات کی ۔۔ میں نے خفگی سے دیکھا تو وہ ابھی تک ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کررہی تھی ۔ میرے گلے میں بازو ڈال کر لٹک گئی ۔۔۔ ابھی تک ہنسی جارہی تھی پھر بڑی مشکل سے بولی ۔۔۔ تمہاری ہوٌنق شکل دیکھ کر ہنسی آگئی ورنہ میں نے پورا ڈرامہ تیار کر لیا تھا آج تمہاری کلاس لینے کا۔۔ وہ ہنسی کے ساتھ ساتھ میرا مذاق بھی اڑانے لگی۔۔ تم دونوں کیا کررہی ہو ؟ ثناء غالبا کافی لینے آئی اور ہمیں دیکھ کر کچھ جیلس سی ہوگئی ۔ مجھے اوپر کام پہ لگا کر تم دونوں ادھر لطیفے سنا رہی ہو ایکدوسرے کو ۔۔ ثناء کی اس بات پر ایلی کو اور ہنسی آنے لگی اور پھر وہی ہوا ۔ محترمہ ہنستے ہنستے زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگی ۔ میں نے ثناء کو دیکھا جو اب پریشان ہورہی تھی کہ ایلی کو کیا ہوا ۔ اٹھاو اس کو۔۔ اور پھر ہم دونوں نے ایلی کو ڈنڈا ڈولی کرتے ہوئے صوفے پہ لے جا پھینکا۔
اس روز رات تک ہم نے شادی کا کھلارا سمیٹا اور پھر رات آنٹی کی طرف کھانے پہ چلے گئے ۔۔ ابو سے ملنا تھا ۔ امی نے مجھے اوپر کمرے میں بلایا۔ گڑیا اب ذرا دھیان سے میری بات سننا۔ امی کی ایسی خطرناک انداز کی تمہید نے مجھے پریشان کردیا۔ آخر ایسی کیا بات تھی ؟
حمزہ مجھے بہت پیارا ہے اسی لئے میں نے تمہارے ابا سے اس نکاح کیلئے لڑائی لڑی۔ لیکن خاندان بھر میں بہت۔باتیں ہورہی ہیں ۔ خصوصا حمزہ کا تمہارے ابا سے جھگڑے کا علم سب کو ہوگیا۔ کچھ تو تمہارے رشتہ مانگنے والوں نے بہت بڑھا چڑھا دیاکہ گڑیا خود حمزہ کو کہہ کر آئی ورنہ پاکستان میں بھی نکاح ہوسکتا تھا۔۔۔ امی کچھ رکیں اور میں سوچ رہی تھی کہ کیسا ظالم معاشرہ ہے۔ ایک جائز کام کے خلاف کیسے کیسے بیان تراشے ہیں۔ اگر ہم نکاح نہ کرتے تو ہمارے درمیان کشش کے۔لمحے تو روکے نہی جاسکتے تھے اور جیسا جنوں اور دیوانگی حمزہ کی میرے۔لئے تھی وہ گناہ کے راستے کی طرف لے جاتی۔ مجھے حمزہ کا بروقت فیصلہ کرنا اچھا لگا ۔محبت کی منزل نکاح ہے۔ یہی درست راستہ تھا ۔ کہتے رہیں جو بھی کہتے ہیں خاندان والے۔ جن کے رشتے میں نے ٹھکرائے وہ اپنا غصہ اسی طرح نکالیں گے۔ البتہ ابو کو بہت دکھ تھا ۔ اس بات کی مجھے شرمندگی تھی ۔ اور اب حمزہ کا رخصتی کیلئے جلدی کرنا ایک نئی مہم تھی بلکہ مصیبت نظر آتی تھی کہ ابو کسی صورت نہیں مانیں گے۔ وہ ثناء کی شادی سے پہلے میری رخصتی کسی صورت نہیں ہونے دیں گے یہ میں جانتی تھی۔ لیکن حمزہ کو اپنی سپورٹ۔کا یقین دلانا بھی ضروری تھا۔
اب یہاں سب تم سے بہت فضول سوال۔کریں گے ۔امی پھر بولنے لگیں اور بہت ساری نصیحتوں کے بعد سب سے اہم بات ثناء کے رشتے کی بتائی۔ تمہارے ابو نادر اور اس کے گھر والوں سے مل۔گئے ہیں اور انہیں وہ لڑکا پسند ہے البتہ ابھی شادی کیلئے رضامند نہی۔ ان لوگوں کو پاکستان آنے کی۔دعوت دے دی ہے۔ جب ہم واپس جائیں گے تو وہ وہاں آجائیں گے پھر شادی کا سوچیں گے۔ تم نے میرا ساتھ دینا ہے ۔۔ امی نے مجھے سے سوالیہ انداز سے کہا تو میں نے تعجب کا اظہار کیا ۔ کس حوالے سے ساتھ کا کہہ رہی۔ہیں امی؟ میں نے پوچھا تو پھر بولیں۔ بس زرا نادر کی چانچ پڑتال۔۔ تمہیں پتا ہے ادھر کے۔لڑکوں میں۔سو طرح کی خرابیاں ہوتی ہیں سامنے اچھا بنا ہو اور۔۔۔ مجھے امی کی بات سمجھ آگئی۔۔ آپ اس کی فکر نہ کریں ۔ اگلے ہفتے ایلی اور شمریز ہنی مون کیلئے جارہے ۔نادر کا گھر اسی شہر میں۔ہے ۔ آپ بتائیں ایلی تو بضد ہے کہ ہمیں ساتھ لے کر جائے گی ؟ ہاں ہاں ۔۔ اگر کہتی ہے تو جاو۔۔ ذرا نادر کا گھر بار بھی دیکھ آنا۔۔ ہم کچھ دیر مزید بات کرتے رہے پھر میں ساری باتوں پہ غور کرتی ایلی کے گھر واپس آگئی۔ وہ دونوں ہمیں کہیں اور جانے نہیں دے رہے تھے ۔ حالانکہ ابھی سارا خاندان ہمارا منتظر تھا سبھی دعوت دے چکے تھے کہ چند روز ان۔کی طرف گزار لیں۔
ہنی مون پہ جانے کی تیاری مکمل تھی ہم ائیرپورٹ پہنچ چکے تھے ۔ ایلی کی دوست بھی ساتھ تھی ۔ بچپن کی دوستی تھی اور دو ماہ بعد اسکی بھی شادی تیار تھی۔ عاشی اچھی خوش مزاج لڑکی تھی ہمیں اس کی۔کمپنی میں بہت مزہ آیا۔ رات ہوٹل پہنچے اور آرام کیا۔ صبح بالکونی سے باہر دیکھا تو خوبصورت منظر تھا ۔ سامنے سمندر تھا اور اسکے ساحل پہ لوگ دھوپ سیکنے جمع ہورہے تھے ۔ ہم تیار ہوکر ناشتہ کرنے نیچے آگئے تھے ۔ جوس برڈ اور انڈے تھے ۔ کافی بہت شاندار تھی۔ وہیں سے باہر نکلے ۔ سامنے بیچ پر کچھ دیر گھومتے رہے ۔ ایلی اور شمریز کہیں رومینس میں مصروف تھے نظر نہیں آرہے تھے ۔ ہم نے بھی انہیں پراویسی دئیے رکھی اور خود انجوائے کرتے رہے ۔ سمندر میری طبیعت بدل۔دیا کرتا تھا۔۔۔ اب بھی مجھے اپنےحصار میں لینے کا ارداہ تھا کہ عاشی نے مجھے پانی پہ دھکا دے دیا ۔ بس پھر کیا تھا۔۔ پانی پت کی جنگ چھڑ گئی۔۔ جب تک دونوں کو پوری طرح سے ڈبو نہ لیا چین۔نہ آیا۔۔ ہم اتنا کھیلے کہ احساس ہی نہ ہوا کہ باقی لوگ کھڑے ہماری وڈیوز بنا رہے ہیں اور حیران ہورہے ہیں۔کہ یہ دیسی کڑیاں کیسے زبردست انجوائے کررہی ہیں ۔ تھک ہار کے ساحل۔پہ گرے تو سورج عین سر ہی کھڑا تھا اور کوئی اور بھی سورج میں کھڑا تھا ۔۔ ابھی غور وفکر جارہی تھا کہ یہ کیا بلا ہے جو ہمارے اور سورج کی تیز روشنی کے بیچ ہائل۔ہوگئی اور اب نہ سورج پورا نظر آرہا تھا اور نہ اس مخلوق کی سمجھ آرہی تھی۔ کیا ہوگیا اب شکل بھی یاد نہی آرہی ۔۔ یہ تو ایلی تھی ۔ جو سر پہ پرندوں کے پر لگائے جنگلیوں کی ملکہ بنی عین ہمارے سر پہ آن کھڑی ہوئی تھی۔ اچھا اسی لئے ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیا بلا ہے جس نے چکا چوند روشنی کو مشکوک کررکھا ہے۔ میں سیدھی اٹھ بیٹھی تو ایلی کا حلیہ دیکھ کر میری ہنسی جاری ہوگئی ۔اتنا ہنسی کہ حلق خشک محسوس ہونے لگا ۔ عاشی اور ثناء بھی ہنس رہی تھیں ۔ ایلی نے بھی اب پوزنگ شروع کردی۔ ہالا لا۔۔۔ ہو ہو ۔۔ منہ پہ سفید دھاریاں اور گلے۔میں ہڈیاں لٹکائے وہ بیلی ڈانس کی طرح سے کوئی پرفارمنس دے رہی تھی اور عمدہ ایکٹ تھا۔ ہم کیا ہنس رہے تھے وہاں تو گوروں کالوں اور عربوں کا ہجوم جمع ہوگیا۔ مفت کی پرفارمنس تھی۔ لوگ تالیاں بجا رہے تھے۔ ایلی نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے بھی اس ہنگامے میں شامل کرنا چاہا ۔۔ ثناء نے دیکھا تو بھاگ کھڑی ہوئی کہ ایسے پبلک میں میں کوئی ڈرامہ نہیں کرنا لیکن۔میں نے ایلی کا ساتھ دیا اور کچھ ہی دیر میں سارا ساحل جھوم رہا تھا ۔۔ سبھی ناچنے لگے۔ خوب ہلاگلہ ہونے لگا۔ کچھ دیر بعد ہم۔تھک کر واپس ہوٹل کہ طرف چل۔پڑے جو ساحل کے ساتھ ہی تھا۔ لابی میں سے گزرے تو کچھ لوگوں نے تالیاں بجائیں غالبا وہ بھی ہماری۔پرفارمنس دیکھ آئے تھے ۔ کمرے میں جاکر ہماری دوڑ لگ گئی کہ پہلے کون نہائے گا۔ ایکدوسرے کو گرا کر گھسیٹ کر ہم تینوں باتھ کے دروازے تک پہنچ گئے لیکن کامیابی ثناء کو ہوئی اور وہ بھاگ کر باتھ میں گھس گئی۔
اس روز ہم شام قریبی علاقہ دیکھتے رہے۔ اچھا تاریخی سا کلچر نظر آیا ۔۔رات سمندر اوپر کو بڑھنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے اطراف کی سڑکوں پہ پانی نظر آنے لگا ۔ یہ کیسا دلفریب منظر تھا کہ سمندر کے ساتھ گزرنے والی اکثر کاروں پہ کوئی اونچی لہر حملہ آور ہوتی اور کار کی ونڈ اسکرین پہ وائپر چلنے لگتے۔۔ جیسے موسلادھار بارش کی مختصر سی قسط چلی ہو۔ اچھا ہوا جو ہم آگئے ۔ ثناء بھی خوش تھی کہ مفت میں ایسی عیاشی مل رہی تھی ۔ اگلے روز بھی ہم نے ادھر گرد بہت مقامات تھے جو دیکھے۔ ایک پرانا قلعہ سا تھا جس پر جانے کا راستہ کچا تھا۔ ہم نے ان ہلکے براؤن اور سفید چٹانوں والے رستے پہ جا بجا بگلے نما پرندے اوپر چٹانوں سے چپکے دیکھے جیسے چمگادڑ لٹک رہے ہوں ۔ایک جگہ ثناء اور عاشی ایکدوسرے سے لڑنے جھگڑنے۔میں۔مصروف تھیں کہ ایلی اور شمریز کا سامنا ہوگیا۔۔۔ ہنسوں کا جوڑا پیار کے۔لمحے انجوائے کررہا تھا کہ ان دونوں نے دیکھ کر نعرے بازی شروع کردی ۔ خوب مذاق اڑانے لگیں ۔ ایلی آگے بڑھی اور ثناء کو دھکا دے کر بھاگ گئی ۔ شمریز بھی ہنس رہا تھا۔ پھر ہم اس قلعے کے دوسری طرف اتر گئے ۔۔ واہ کیا ہری بھری وادی تھی ۔ ایسا لگتا تھا کہ بلیک اینڈ وائٹ فلم۔سے نکل کر کلرڈ مووی میں آگئے ۔ رنگ برنگی پھول اور چھوٹی سی جھیل کیا رومینٹک منظر تھا۔ ڈھلان سے اترتے ہوئے عاشی اور ثناء ایکدوسرے کو دھکیلنے لگیں اور کچھ ہی دیر میں ہم سب بچوں کی طرح رولنگ کرتے ہوئے نیچے جانے لگے ۔ عاشی تو اتنی تیزی سے نیچے آئی کہ دھڑاپ سے جھیل کے ہلکے پانی میں جاگری ۔ بچاری بھیگ گئی ساری ۔ گیلی پینٹ کے ساتھ اب اس کے لئے سردی میں زیادہ دیر گھومنا ممکن نہ رہا البتہ دن کا وقت تھا تو کچھ دیر ہم نے وہاں گزارا ۔ایلی اور شمریز کی ڈھیر ساری تصاویر کھینچیں ۔ واپسی پہ شمریز نے بتایا کی کل صبح چیک آوٹ کرینگےاور دوسرے شہر جائیں گے ۔
اگلے روز ہم ہوٹل سے نکلنے لگے تو مینجر نے ایلی کو ایک گفٹ پیک دیا جو غالبا وہ اکثر نوبیاہتا کو دیتے رہتے تھے۔ ان کے ساتھ فوٹو سیشن کیا اور ٹرام اسٹیشن چل دئیے۔ منزل مقصود پہ پہنچے تو ہوٹل کی ٹرانسپورٹ باہر کھڑی ملی ۔ اپنے کمروں میں پہنچے اور فریش ہوکر باہر نکل گئے۔ یہ بارونق شہر تھا۔ کچھ شاپنگ سنٹر دیکھے اور کچھ گفٹس خریدے۔ پھر وہیں باہر کھانا کھایا اور رات کمرے میں واپس ائے۔ اب اصل آوٹنگ ہماری کل کی تھی۔ یہ فن لینڈ تھا جہاں رائیڈز اور فیریز کی بھرمار تھی۔ یہ شمریز کا وہ سرپرائز تھا جو اس نے خصوصا ہمارے لئے پلین کیا۔ شمریز کو ایلی پیار سے پروفیسر اور پرو کہہ کر بلا۔رہی تھی۔شمریز کے بارے میں ہم پہ انکشاف ہوا کہ اسے تیز جھولوں سے خوف آتا تھا ۔
ہم جھولوں والی ایکٹویٹی کےلئے لائٹ ڈریسزر پہنے ۔ لوزشرٹس کے ساتھ ریلکیس ٹراوزرز اور پلین شوز ۔ انڈیانا جونز کی طرح بیگ لٹکائے ہیٹ پہنے ہم جب ہوٹل سے نکلے تو سامنے سڑک کی دوسری طرف عمارت کے شیشے میں خود کو دیکھ کر ہم۔سب کی۔بے اختیار ہنسی نکل گئی ۔ اور پھر ثناء کو تصاویر کھینچنے۔کا دورہ پڑگیا ۔ ہم ہوٹل سے کار میں نکلے جو شمریز نے دو روز کے قیام کے لئے ہائیر کروائی تھی ۔ سمجھداری کی شمریز نے ۔ہم نے بھی ڈگی میں سامان بھرلیا۔ لڑکیوں۔نے تو کپڑے اور جوتے بھی ساتھ اٹھائے تھے۔ بہت مزہ آیا سارے رستے ہپ ہاپ میوزک چلتا رہا۔خوب انجوائے کیا ۔پیروڈی اور ایکٹنگ تو عاشی کا خاصا تھا ۔ زبردست نقل۔اتارتی تھی ۔
اب ہم فیری لینڈ/فن لینڈ پہنچ چکے تھے ۔ رولر کوسٹر کو دیکھ کر خوف آتا تھا ۔ لیکن آج ہی تو موقع ملا تھا ۔چھوڑنا تو کچھ بھی نہیں۔ پہلے شوٹنگ کی ۔میں اور ایلی اچھے نشانہ باز ثابت ہوئے ۔ پیارا سا ٹیڈی ایلی کو اور سفید نرم بنی میرے حصے میں آیا۔ پھر ہم ہورر ہاوس گھس گئے ۔ شمریز تو چاہتا تھا کہ اسے باہر چھوڑ جائیں۔ لیکن ایلی نے کچھ اور ہی پلین کیا ہوا تھا اور جب باہر نکلے تو عاشی کے سر کے بال کھڑے تھے ۔ ثناء کے اوپر ڈھیر ساری پارٹی پفس گرائی گئی۔۔۔ میرے ساتھ کیا ہوا؟ میں نے پوچھا تو سب ہنسنے لگے ۔ ایلی نے شیشہ نکالا ۔۔ ہائے ۔۔ باسٹرڈز ۔۔ میرے منہ سے بے اختیار گالی نکل گئی ۔۔ کمبختوں نے میرے چہرے پہ سپرے کیا تھا اور اب میں منہ دھونے کی جگہ ڈھونڈ رہی تھی ۔ سب ہنس رہے تھے ۔ ایلی اور شمریز نے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خوب رومینس کیا اور تما شا یہ ہوا کہ جب وہاں ان سائیڈ کیمروں نے تصویریں لیں تو ان بےشرموں کی تصاویر پر سارے لوگ مزے لیتے نظر آئے ۔ اب ایلی شرمندہ ہوگئی اور جلدی سے قیمت ادا کرکے اپنی تصاویر لیں۔ ہماری تو ایسی خوفناک شکلیں تھیں کہ دل ہی نہ کیا کہ کوئی بھی تصویر لیتے لیکن شمریز نے یادگار کے طور پر ایک ایک سب کی تصویر لے لی۔ اب ہم رولر کوسٹر کی طرف جارہے تھے ۔ شمریز کی شکل دیکھ کر ہنسی آرہی تھی ۔ وہ بالکل بھی بیٹھنے کے حق میں نہ تھا لیکن ایلی کب چھوڑتی تھی ۔ ٹکٹ لے کر جب میں اور ایلی آئے تو پتا چلا کوئی بھی فرنٹ پہ بیٹھنا نہی چاہتا ۔ ذرا سا جھجکی لیکن کیا کرتی مجھے ہی بیٹھنا پڑا ۔ لو جی اس میں کیا ڈرناتھا ۔۔۔ ابھی آہستہ آہستہ کوسٹر چل رہی تھی ۔ سامنے سارا شہر نظر آرہا تھا واہ کیا نظارہ تھا۔ ہائےےےے۔۔۔۔ اور ہم نیچے کو اترنے لگے اب سپیڈ تیز ہورہی تھی ساتھ دل کی دھڑکن بھی ۔ اتنا سیدھا اتر رہے تھے اتنی اونچائی سے کہ دل رکتا ہوا محسوس ہوا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو عاشی اور شمریز دونوں نے آنکھوں پہ ہاتھ رکھا تھا البتہ ایلی اچھل رہی تھی ۔یقینا وہ پہلے بھی کئی بار بیٹھی تھی ۔ اب ہم اوپر کو جانے لگے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو جان نکل گئی ۔۔ ہم تو جیسے الٹا آسمان سے لٹک رہے تھے۔ ایک سرد لہر ریڑ کی ہڈی میں دوڑنے لگی ۔ابھی کوسٹر سیدھی بھی نہ ہوئی تھی کہ وووووہووو۔۔۔ اور ہماری چینخیں نکل گئیں ۔۔۔ اب کوسٹر فل سپیڈ سے نیچے گئی اورتیز ہوتی ہوئی پھر اوپر سے نیچے گر گئی ۔۔ اللہ اللہ ۔۔ ثناء میرے پیچھے تھی ۔۔ کان کے پردے پھاڑ دئیے اس کی چیخوں نے ۔۔ جب تک کوسٹر پہ رہے ہمارے منہ بند نہ ہوئے ۔جب رکی تو سب کے سر چکرا رہے تھے۔ اف ۔۔۔ کتنا مزہ آیا نا ؟ ایلی نے ثناء کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو اس نے گھور کر دیکھا توبہ۔۔ جان کئی بار نکل کر واپس آئی ۔۔ میں تو اب زندگی میں نہ بیٹھوں۔ وہ کانوں کو ہاتھ لگا رہی تھی ۔ سامنے ہماری خودساختہ کیمروں سے لی گئی تصاویر چل رہی تھیں۔ ایسی خوفناک شکلیں کہ خود کو خود ہی نہ پہچانا۔ کوئی ارادہ نہ تھا کہ لیتے لیکن شمریز نے یادگار جمع کرنے کے بہانے لے لیں۔ ایسے بڑے بڑے منہ کھولے تھے کہ حلق کا قوا بھی کئی تصاویر میں صاف دیکھا جاسکتا تھا ۔ اس کے بعد ہم اتنا تھک گئے کہ ایک بنچ پر جاکر ڈھیر ہوگئے ۔ ایلی آئس کریم لے آئی سب کو دی۔ شمریز نے اپنی ختم کرلی تو ایلی کی بھی کھا گیا ۔ ایلی پھر گئی اپنے لئے اور لائی ۔ بچاری ہم سے باتیں کرتی تھی تو شمریز چپکے سے اس کی آئس کریم چاٹ لیتا تھا ۔ اور پھر شمریز نے وہ بھی چھین لی ۔ ایلی کو غصہ آیا تو عاشی کو بولا کہ اور لے آو ۔ تیسری آئس کریم آئی تو شمریز نے ایلی سے پھر مانگی ۔ ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ شمریز کو اتنی آئس کریم کی کیا طلب ہوگئی کہ دل ہی نہیں بھر رہا اسکا ۔ دو چار بار جب اس نے ایلی سے آئسکریم مانگی اور اس نے نہ دی تو اس نے چھیننے کی کوشش کی ۔ ایلی نے غصے میں آکر ساری آئسکریم اس کے منہ پہ مل دی اور کچ کچ کچ۔۔۔ ثناء نے تصاویر کھینچ لیں۔ اب سارے ہنس رہے تھے لیکن ایلی خفا تھی ۔پھر شمریز نے اس کے کان میں کچھ کہا اور ایلی کا موڈ بدل گیا ۔اب ہم ایسے بچے تو نہ تھے ۔ سمجھ گئے کوئی خاص راز و نیاز ہوئے جو ایلی کا غصہ رفع دفع ہوگیا۔ وہاں سے اٹھے اور کچھ دیر گھوم پھر کر شاپنگ کی اور پھر سے رائیڈز کیلئے چل پڑے ۔
No comments:
Post a Comment