Thursday, 2 August 2018

کتھارسس

کتھارسس (Catharsis )
سعدیہ کیانی

دیکھو یہ چال سب سے اہم ہے ۔۔
تم صرف اس کو سمجھو ۔ گھوڑے کی طرح کوئی دوسرا مہرہ اسطرح صرف دو چالوں میں مات نہی دے سکتا ۔
تمہارا مزاج شطرنج کے گھوڑے جیسا ہے ۔ کسی بھی وقت ہاری ہوئی بازی کر جیت میں بدل سکتی ہو ۔ سمجھو ۔۔۔ غور کرو !
تب میں 18 برس کی تھی اور میرا کزن مجھے شطرنج سکھارہا تھا ۔ کھیلتی تو پہلے بھی تھی لیکن ابکہ بار جب وہ آیا تو اسے یکے بعد دیگرے مات کا سامنا کرنا پڑا تبھی اسے خیال آیا کہ مجھے نیا سبق سکھانے کا وقت ہوگیا۔
لیکن اس نے مجھے کیا چال سکھانی تھی۔۔ وہ تو خود مات کھا گیا جب اسے خبر ہی نہ ہوئی کہ کب میں اس کی زندگی کنٹرول کرنے لگی ۔
ڈیڑھ برس بعد جب وہ میری ماں کے قدموں میں بیٹھ گیا کہ کسی طرح اپنی بیٹی کو منا لیں ورنہ میں جان سے جاوں گا تب۔۔۔ میری اماں نے مجھے بازو سے پکڑا اور تقریبا گھسیٹتے ہوئے دوسرے کمرے میں لے جا کر دروازہ بند کرلیا۔
تو سمجھتی کیا ہے خود کو؟
جان لے گی اب اس کی ؟
پورا سال ہوگیا وہ تیری منتیں کررہا ہے کہ بیاہ کرلے جو چاہے گی کرنا کوئی روک ٹوک نہی۔ پھر بھی تیری اکڑ ہے کہ ختم ہونے کو نہیں ۔۔۔۔۔
کونسی اکڑ؟ میں نے اماں کی بات تیزی سے کاٹ کھائی ۔
میں نے اسے کہا تھا کہ میرا رشتہ مانگے؟
میں نے کہا تھا کہ میرے عشق میں جھلا بنا پھرے؟
میں نے ۔۔۔۔
توبہ توبہ۔۔۔۔ امی نے میری بات مکمل نہ ہونے دی اور کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولیں ۔
ایسی سخت دل لڑکی ہے تو ۔۔۔
کیا کمی ہے اس میں؟
پورے خاندان میں اس سے زیادہ لائق اور تعلیم یافتہ ایک بھی نہیں ۔۔۔
تیری خالہ سمیت ساری برداری ہاتھ ملتی ہے اسے دیکھ کر ۔ کون نہیں چاہتا کہ اس کی بیٹی سلیم سے بیاہی جائے جو ابھی 24 برس کا بھی نہ ہوا اور دو گھروں کا مالک ، دادا کی ساری زمین اور ماں کی جائیداد کا اکلوتا وارث، اس پر  لاکھوں کی تنخواہ الگ لیتا ہے ۔۔۔
اماں ۔۔ لیکن مجھے یہ سب نہیں چاہیے ۔۔ میں نے جھلا کر پیر پٹخا۔
تو اور کیا چاہیے تجھے ؟یہ افسانوی باتوں سے باہر نکل آ اور چپ چاپ اپنا گھر بسا ۔۔۔ اس سے بہتر رشتہ پھر نہ آئے گا ۔۔۔
اماں مجھے ساتھ ساتھ جھنجھوڑنے میں مصروف تھیں جب بڑے بھیا اور لالہ آ گئے ۔ بڑے ماموں کے بیٹے کو ہم لالہ کہتے تھے ۔
کیا بات ہے ؟ اختر لالہ پیار سے میرے سر پہ ہاتھ رکھا تو میری آنکھیں بھرنے لگیں ۔۔۔
اوہو ۔۔۔ رونے کی کیا بات ہے ؟مجھے بتاو تم کیا چاہتی ہو ؟
امی مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں ۔ بھیا بھی وہیں بیٹھ گئے ۔
دیکھو میرو۔۔۔ اگر تم سلیم سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو اس کی کوئی تو وجہ ہوگی ؟
ہر لحاظ سے پرفیکٹ ہے ۔ مال و دولت ۔۔ تعلیم ۔۔ ہنر۔۔ سمارٹ ذہین اور بااخلاق۔۔  سبھی کچھ تو ہے ۔۔
ہمیں تو انکار کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔ اب تو بچارے کی حالت دیکھی نہیں جاتی کسی وقت بھی کچھ کر جائے تو زمہ دار کون؟
بھیا نے مجھے پیار سے سمجھایا تو اختر لالہ نے بھی لقمہ دے ڈالا۔
اور دیکھ وہ تیرا دوست بھی تو ہے ۔۔ کتنی اچھی دوستی ہے تم دونوں کی بچپن سے ہی ۔۔۔
میں دونوں کی بات سن کر پریشان سی ہوگئی۔
اچھا دیکھو ۔۔۔ بھیا بولے
اگر تو کوئی خاص وجہ ہے تو ہمیں بتاو ۔۔ ہم تمہاری مرضی کے بنا کچھ نہی کرنا چاہتے لیکن اب مسئلہ بڑھتا جارہا ہے ۔ سلیم کے ابو کو فالج کا اٹیک ہوگیا ہے اور ہم سبھی اس کو بتانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ وہ گھبرا جائے گا ۔۔۔
یہی بات ۔۔۔ میں نے اچانک بھائی کی بات کاٹ دی۔۔۔
یہی بات ہے بھیا ۔۔۔ اختر لالہ ۔۔۔ میں نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا ۔۔ وہ دونوں حیران سے مجھے دیکھنے لگے۔
مجھے یہ کمزوریاں ہی تو پسند نہیں ۔۔ میں کسی ایسے بندے کے ساتھ نہیں چل سکتی جو حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو ۔۔ جو ہمت ہار جائے ۔۔ میرا سہارا بننے کی بجائے بوجھ میرے کندھوں پہ ڈال دے ۔۔۔
وہ دونوں کچھ دیر کیلئے سوچ میں پڑ گئے ۔۔۔
اچھا چلو ۔۔۔ اس پہ پھر بات کرتے ہیں ۔ ابھی تو تم اپنا رویہ درست کرو اور اسے کچھ تسلی دو کیونکہ کل اسے واپس آسٹریلیا بھجوا رہے ہیں ۔ اس کے ابو کی حالت تشویشناک ہے ۔ اس معاملے کو فلحال یہیں رہنے دو۔
دونوں باہر چلے گئے ۔
اگلے روز سلیم ائیرپورٹ جانے سے پہلے میرے کمرے میں آیا
وہ اپنے ابو کیلئے پریشان تھا ۔
میرو۔۔۔
وہ چپ ہوگیا تو مجھے اچھا نہیں لگا کہ اس وقت میں اس کی تکلیف کو نظر انداز کردوں۔
تم جاو۔ انکل ٹھیک ہوجائیں گے ۔ اور۔۔۔۔ اور ۔۔۔ شاید
میری زبان لڑکھڑانے لگی اور یکدم حلق خشک ہوگیا۔
اور ؟؟؟ وہ بے چینی سے بولا ۔ اس کی آنکھوں میں امید کی چمک تھی ۔
دیکھو ۔۔۔ تم میرے بچپن کے دوست ہو ۔۔۔ کیوں اس ناطے کو توڑنا چاہتے ہو ؟
وہ بے چینی سے بولا ۔ میرو ۔۔۔ یہ دوستی ختم نہیں ہوگی میرا وعدہ ہے تم سے ۔۔۔ ہم اسے اور مضبوط بنائیں گے ۔ لوگ ہماری مثالیں دیں گے ۔ تم میری دوست ہو اس سے اچھی کیا بات ہوگی کہ جو شوق تمہیں ہے وہی مجھے بھی ۔  ہم دونوں دنیا گھومیں گے ۔ اور تمہارا افریقہ جانے کا خواب بھی پورا ہوگا ۔۔  یکدم سلیم گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور میرے ہاتھ پکڑ کر بولا ۔۔
میرو ۔۔۔ ہنزہ میں تمہیں گھر بنا کر دونگا جیسے تم چاہتی ہو ۔۔ گھوڑے بھی ہونگے اور تمہارے لئے شکار کرنے کا سب سامان مہیا کرونگا ۔ بس ایک بار مان جاو ۔۔۔ تمہاری ہر خواہش شادی کے پہلے سال ہی پوری کر دونگا ۔ تمہیں پتا ہے کہ جب میں سوچ لوں تو پھر پیچھے نہیں ہٹتا۔۔ جو چاہتی ہو وہی ہوگا ۔۔ سب تمہاری مرضی کے عین مطابق!
اس کے بعد میرے پاس انکار کی کیا گنجائش رہ گئی تھی۔ ابا جتنے بھی تگڑے تھے۔ میرے اسطرح کے جنگلی اور مہنگے شوق پورے کرنا ان کے بس کی بات نہ تھی ۔ اسلئے گھڑ سواری کیلئے کبھی کبھی جب سمیع انکل کے فارم پہ جاتی تھی تو حسرت سے ان کے شاندار گھوڑوں اور وسیع و عریض فارم ہاوس کو دیکھتی تھی کہ انکل خود تو امریکہ ہیں اور ان کے ملازم یہاں عیاشی مارتے ہیں ۔
پھر ایک روز انکل نے وہ فارم بیچ دیا اور گھوڑے دوست کو گفٹ کردئیے ۔۔ تب اگر میرے پاس جگہ ہوتی تو وہ سفید گھوڑی جسے میں چاندی کہتی تھی ۔ انکل مجھے دے دیتے ۔ لیکن ہمارے شہری گھر میں اس کی جگہ کہاں تھی۔ مجھے آج بھی چاندی کا غم کھائے جاتاتھا۔۔۔
سلیم کے جانے کے بعد اماں نے ایک روز پھر میری کلاس لی اور خوب کوسا۔
سلیم کی ماں کا گلہ آرہا ہے کہ میرے لڑکے کا خون خشک کردیا آپ کی لڑکی نے۔
اماں یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے جھلا کہ کہا تو اماں نے آنکھیں نکال کر کہا۔
اکلوتا بیٹا ہے ان کا ۔ تیرے چکر میں ادھر بیٹھا تھا اور ماں باپ ملنے کو ترس گئے ۔۔
اف اماں ۔۔ مجھے نہ بتائیں یہ سب ۔۔ میں نے کمرے سے نکلنے کیلئے دروازہ کھولا تو اماں نے جھٹ میرا بازو پکڑ لیا ۔
شادی تو تیری سلیم سے ہی ہوگئی چاہے زبردستی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
سچ تو یہ تھا کہ مجھے خود بھی کوئی خاص وجہ نظر نہ آتی تھی کہ سلیم جیسے سمارٹ نوجوان کو انکار کیا جائے۔ نا ہی کسی شہزادے کا انتظار تھا اور شاید ۔۔
مجھ جیسی مشکل۔لڑکی کیلئے کسی بھی مرد کا لمبے عرصہ تک ساتھ نبھانا ممکن بھی نہ تھا۔
یہ بات مجھ سمیت سبھی جانتے تھے کہ جو بات مجھے کہنی ہے اسے کوئی ٹوک نہی سکتا اور جو کام مجھے کرنا ہو وہ کوئی روک نہی سکتا ۔
ماریہ اچانک آگئی ۔ چچا کی لڑکی ماریہ میری بچپن کی سہیلی تھی ۔ ہم دونوں ہی شکار پہ چچا کے ساتھ جاتے تھے اور وہ بھی میری طرح گھڑ سواری سمیت سیروسیاحت کی شوقین تھی۔ ہمیں تو چچا کی وجہ سے موقع مل جایا کرتا تھا ورنہ چچی بھی میری اماں کی طرح بہت روایتی سی خاتون تھیں۔
تو کدھر آئی یار؟ میں نے حیرت سے اسے جپھی ڈالتے ہوئے کہا تو بولی۔
چل تیار ہوجا۔۔۔ کل ابو کے ساتھ مچھلی کے شکار پہ جارہے ہیں ۔ اس بار جانوروں اور پرندوں  کےشکار پہ پابندی لگا دی گئی ہے ۔۔۔۔
یہ کیا بات ہوئی ؟ میں نے منہ پھلایا تو مجھے کہنی مارتے ہوئے بولی۔
اس بار کچھ اور بھی ہے ایجنڈے میں۔۔ ماریہ نے بہت شرارتی انداز سے کچھ اشارہ کیا جو مجھے سمجھ نہ آیا۔
اگلی صبح ہم چچا کی جیپ میں سوار دریا کی طرف جارہے تھے۔ چند گھنٹوں کے سفر نے ہڈیاں ہلا دیں تھیں ۔ اس راستے پہ تو شاید کبھی کوئی آیا بھی نہ تھا۔
چچا کا یہی شوق تھا ۔ نئی نئی جگہیں تلاش کرتے رہنا ۔
دریا سے کچھ فاصلے پہ ہم نے کیمپ لگا لیا اور پھر چچا نے ایک بڑے پتھر پہ ہمیں مختلف سمتوں میں بٹھا دیا ۔ ساتھ ہی ہم ڈور باندھنے لگے ۔ پھر ہک پہ کیچوے چڑھائے اور روپ پانی میں پھینک کر بیٹھ گئے۔
ماریہ اور میں ساتھ لیکن چچا مزید آگے کو چلے گئے۔
میرو۔۔۔ سلیم مجھے تمہیں منانے کا ٹاسک دے گیا ہے ۔ ماریہ نے یہ بات اتنی سنجیدگی سے کہی کہ میں ہنسی نہ روک پائی۔
ارے پاگل ۔۔ وہ مجھے دبئی کا ٹرپ بمع شاپنگ آفر کررہا ہے اور تو ہنس رہی ہے ؟
ماریہ کی اس بات کے بعد تو ہم دونوں ہی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔
آخر ایک مچھلی ماریہ کو مل ہی گئی ابھی وہ نکال کر نئی خوراک چڑھا رہی تھی کہ میرے کانٹے نے بھی ہلنا شروع کردیا اور میں نے جلدی سے مچھلی کو باہر نکال لیا۔
شام۔تک ہم دونوں نے خاصی مچھلیاں پکڑ لی تھیں اور چچا کی بکٹ تو اچھی خاصی بھری ہوئی تھی۔
ماریہ سے گفتگو کے بعد میں سلیم سے شادی کیلئے راضی ہوگئی تھی ۔ اماں کو ماریہ بتا چکی تو اماں نے سلیم کو بھی خوشخبری سنا دی۔
سلیم کے گھر والے شادی کی تیاری بھی کرنے لگے۔ لیکن اس کے ابو کی  صحت درست نہ تھی ۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔
سلیم کے والد فوت ہوچکے تھے اور ہماری شادی کی بات رک گئی۔
تین ماہ سے زائد دن گزر گئے تھے ۔ اب اماں کو پریشانی لاحق ہوگئی کہ سلیم کی ماں نے پھر کوئی ذکر تک نہ کیا کہ آئندہ ان کا کیا ارادہ ہے اور شادی کے لئے وہ کس وقت کا انتخاب کریں گے ۔
اماں نے سلیم کی امی کی مدت عدت پورا ہونے کا بڑے صبر سے انتظار کیا تھا۔ لیکن انہیں زیادہ پریشانی سلیم کی تھی جو اب دیوانوں کی طرح فون نہیں کرتا تھا ۔
پہلے پہل اماں نے سوچا کہ باپ کی موت کا صدمہ ہے لیکن پھر اس کا جاب پہ جانا سننے میں آیا ۔اس کے بعد سنا کہ وہ دوستوں کے ساتھ یورپ گیا ہے ۔ پھر اماں کو کسی نے بتایا کہ سلیم کی پرانی گرل فرینڈ رہنے کو آئی ہے اور کسی نے یہ بھی بتا دیا کہ وہ سلیم کے کمرے میں سوتی ہے جبکہ سلیم اپنے ابا والے کمرے میں سوتا ہے جو بالکل برابر میں ہی ہے۔
اماں کچھ تو یہ سب سن کر پریشان تھیں اور کچھ وہ عورتیں جن کی بیٹیوں کو سلیم نے ٹھکرا دیا تھا اب بدلا لینے کی خاطر اماں کے کان بھرتی رہتی تھیں۔
اماں اب میرے سامنے بیٹھ کر اپنے خدشات کا اظہار کرتی رہتی تھیں کہ شاید میں انہیں کوئی تسلی دونگی جیسے میری سلیم سے بات ہوتی رہتی ہو۔ لیکن کہیں کہیں اماں کے خدشات درست تھے ۔ سلیم نے مجھے بھی بہت کم فون کئے تھے۔ اس کا جنوں بھی کہیں بہہ گیا تھا اب وہ سرسری سے انداز میں حال احوال پوچھتا تھا۔
ماریہ ایک روز آئی تو کہنے لگی۔
میرو ۔۔۔
ایسا کیوں لگتا ہے کہ سلیم کا دل بدل گیا ہے ۔۔۔ وہ ویسا نہیں رہا۔ کہاں تو میری جان کو آیا تھا کہ تمہیں راضی کروں اور کہاں چار ماہ میں صرف دو بار فون کیا۔
میں خاموشی سے سنتی رہی وہ کہتی رہی کہ یہ لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ وہاں گوری چٹی کڑیاں دیکھ کر اس کا دل پھر گیا ہے ۔
مجھے ہمدردی سے دیکھتے ہوئے بولی۔
میں نے تیرے ساتھ زیادتی کی ناں؟ خواہمخواہ تجھے زبردستی منگنی کیلئے راضی کیا ۔
تو ٹھیک کہتی تھی ۔۔۔
مرد کی دسترس میں آنے سے پہلے عورت کی قدر اور ہوتی ہے اور جب اسے پا لے تو اس کی قدر و قیمت میں کمی آجاتی ہے ۔۔۔
دیکھ کیسے ایڑھیاں رگڑتا تھا اور جیسے ہی تونے ہامی بھری وہ لاپرواہ ہوگیا ۔
مجھے ماریہ کے جذبات کی سمجھ تھی اسلئے اس وقت میں نے اسے نہ چھیڑا ۔
چند روز بعد ماریہ کی امی نے سلیم کی امی کو فون کیا تو انہوں نے مصروفیت کی وجہ سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ چند روز تک وہ فون کریں گی ۔
پھر تقریبا ہفتہ بھر گزر گیا تو ایک روز انہوں نے فون کیا اور شادی سال بھر کیلئے ملتوی کرنے کی درخواست کی ۔ اماں نے کہا کہ وہ سب سے مشورہ کرکے جواب دیں گی ۔
پھر تین روز تک خوب بیٹھکیں لگتی رہیں ۔ کبھی ادھر تو کبھی چچا کی طرف سارے بڑے بیٹھ جاتے۔
میں سب دیکھتی رہی ۔۔۔ کسی سے کچھ نہ کہا ۔ میں جانتی تھی کہ ایک بار اگر منگنی ختم کردی گئی تو پھر یہ ساری زندگی ناکردہ گناہوں کی طرح میرے ساتھ ساتھ چلے گا اور جگہ جگہ وضاحتیں دینی ہونگی ۔
پھر ایک روز سلیم کا فون آیا ۔ وہی سرد لہجہ ۔ آج وہ بار بار کسی دوست کی نئی نویلی بیگم اور اس کی بہن کا تذکرہ کررہا تھا ۔ مجھے سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ میری فیاض طبیعت کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے کہ میں اسے آزاد کردوں ۔ شاید یہی میں بھی چاہتی تھی ۔ لیکن فلحال میں نے کچھ بھی کہنے سے اجتناب کیا ۔
ابھی مجھے صورتحال کا جائزہ لینا تھا ۔
دیکھنا تھا میرے اعتماد اور انا کو کس حد تک نقصان پہنچا اس رشتے سے۔
مجھے حساب لگانا تھا کہ میں نے کیا کھویا اور اس نے کیا پایا؟
میرے لفظوں کی قیمت مجھے اس کی سانسوں سے زیادہ نظر آتی تھی ۔ میرے جذبے کی اہمیت مجھے اس کی جان سے اوپر دکھائی دیتی تھی ۔
یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ پاگلوں کی طرح میرا پیچھے کرنے والے نے میرے سرینڈر کو میری کمزوری سمجھ لیا؟
یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ کھیل سکھانے کے بہانے مجھ سے کھیل گیا؟
اب میں سوچ رہی تھی ۔۔۔۔
میں نے سرینڈر کرکے ۔۔ کیا کھویا ؟
اس تمام عرصے میں مزید تین ماہ گزر چکے تھے ۔
سلیم اور اس کی ماں نے رابطہ تقریبا ختم کردیا تھا لیکن ابھی باضابطہ طور پر منگنی توڑنے کا اعلان نہ ہوا تھا ۔
اماں کا بلڈ پریشر ہائی رہنے لگا تھا اور وہ اب اس وقت کوستی رہتی تھیں جب مجھے مجبور کیا کرتی تھیں کہ میں سلیم کی محبت کی قدر نہی کرتی ۔
میں کیا بتاتی کہ سلیم مجھے کبھی وہ احساس نہیں دے پایا جو من کو ہرا کرتا ہے ۔ کبھی اسے دیکھ کر میرے دل میں ہلچل نہ مچی تھی۔ کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ میں اسے سوچتی ہوئی خوابوں میں کھو جاتی جیسے وہ کہا کرتا تھا کہ تمہیں دیکھ کر میں اردگرد سب کچھ بھول جاتا ہوں۔
ایک دن اختر لالہ آئے اور مجھے کہنے لگے کہ آو تم سے کچھ بات کرنی ہے۔
میں ساتھ چل دی۔ لان میں بڑے بھیا اور چچا بھی موجود تھے ۔ میں سمجھ گئی کہ اب فیصلہ کرنے کا وقت آگیا ہے۔
میرو ۔۔۔ بچے بتا پھر تیری کیا مرضی ہے ؟
چچا نے بالکل سیدھی بات کہہ دی ۔یہی ادا تو مجھے ان کا دیوانہ بناتی تھی۔ کیسے سادگی سے بڑی سے بڑی بات کہہ دیتے ۔ کوئی بناوٹ نہیں کوئی تمہید نہی ۔
جی چاچو۔۔ میری کیا مرضی ہونی ؟ آپ نے طے کیا سب ۔۔ آپ  ہی نبیڑیں۔
میں بھی چچا جی کی بھتیجی تھی ۔۔ ویسا ہی جواب دے دیا۔
مطلب تجھے کوئی مسئلہ نہیں اگر ہم اس کی طبیعت سیٹ کردیں ۔ چچا نے مذاق کیا۔
یار ۔۔ یہ سنجیدہ مسئلہ ہے ؟ اختر لالہ ذرا چڑ کر بولے تو میں نے کہا۔
لالہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جو مناسب لگے کیجئے ۔ میں ایسی کمزور نہیں جو لوگوں کی باتوں سے گبھرا جاونگی۔ آپ بے فکر ہو کر معاملات دیکھیں ۔
بھیا بغور میرے چہرے کو دیکھ رہے تھے ۔
کچھ دیر بعد نشت برخاست ہوگئی تو میں کمرے میں آگئی ۔
ابھی کتاب اٹھائی تھی کہ بھیا نے دروازے پر دستک دی ۔
میرو ۔۔ اندر آجاوں ۔۔ بھیا کی آواز آئی ۔
جی جی۔۔ بھیا آئیں۔
وہ اندر آئے اور خاموشی سے میرے بیڈ پہ بیٹھ گئے ۔۔
میرو ۔۔ میں تیرا بھائی ہوں ۔ بچپن سے تجھے جانتا ہوں۔
میں سمجھ گئی تھی کہ۔بھیا نے میرے پرسکون چہرے کے پیچھے غصے کو بھانپ لیا تھا۔
دیکھو۔۔  سلیم اور اس کی ماں کو برادری سے بہت کچھ سننے کو مل رہا ہے ۔ لیکن پھر بھی ہم ایسے معاف نہیں کریں گے ۔ خاندان والے مکمل بائیکاٹ کریں گے ان سے ۔
اب سلیم کبھی اس طرف نہیں آسکے گا ۔ لیکن ۔۔۔
بھیا کچھ لمحہ کو سوچ میں پڑ گئے ۔۔۔
دیکھ میرو ۔۔۔ میری طرف مکمل توجہ کرکے بھیا پھر بولنے لگے ۔۔
ابھی ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔تجھے فکر کی ضرورت نہیں ۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ تو کیا سوچ رہی ہے۔۔ 
میں نے بھیا کی جانب دیکھا تو وہ مکمل اعتماد سےمجھے دیکھ رہے تھے ۔۔ یقینا وہ درست کہہ رہے تھے وہ میرا ارادہ بھانپ چکے تھے۔
ہمیں بھی تیری عزت نفس کا خیال ہے ۔ وہ دو ٹکے کا چھوکرہ کیسے اسطرح ہماری ہیرے جیسی بہن کو ٹھکرا سکتا ہے۔  اس کی ایسی جرآت بھی کیونکر ہو ۔۔
مجھے پتا ہے کہ تمہیں غصہ کس بات کا ہے ۔ ہم ہیں نا تیرا بدلہ چکا لیں گے ۔۔۔ تو اس بارے مت سوچ ۔۔۔
بھیا میرے سرپہ دست شفقت رکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
میں کچھ دیر غور کرتی رہی کہ بھیا دراصل مجھے کیا سمجھانا چاہتے تھے ؟ مجھے تو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا کہ سلیم کہیں اور دلگی کرے یا مجھے پوجتا رہے ۔ میں نے کب اسے اتنی اہمیت دی تھی ۔ بس سب کا اصرار تھا تو مان گئی۔
ہاں ایک گرمی سی ضرور تھی دماغ میں کہ پہلے دوسال سب کو مصیبت میں مبتلا رکھا اور اب جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔
میں نے کتاب اٹھائی اور فلحال سلیم کی فکر اٹھا کر پس پشت ڈال دی۔
ارے کیا چل رہاہے؟ صبح ناشتے کی ٹیبل پر پھپھو نظر آئیں ۔ مجھے دیکھ کے عینی پھپھو کی لڑکی اٹھ کر آگئی اور مجھے گالوں پہ بوسہ دیتے ہوئے بولی ۔
اکسیر بھیا کی شادی شروع ہے ۔ دعوت دینے آئے ہیں۔ بس آپ تو ریڈی ہوجائیں۔ ساتھ جائینگی۔
میں ابھی چائے پی لوں ؟ میں برجستہ جملہ کہا تو سب قہقہے لگانے لگے ۔
میرو پتر ۔۔۔ گاوں جارہے ہیں ہم سب ۔ تو نے ساتھ چلنا ہے تو چل نہیں تو اکسیر دو دن بعد آرہا ہے تو اس کے ساتھ آجا۔
پھپھو میرے سامنے چائے رکھتے ہوئے بولیں۔
مجھے کیا اعتراض ہے پھپھو ۔۔۔ گاوں بلائے تو کوئی منع کر سکتا ہے بھلا ؟ میں نے بریڈ اور آملیٹ سامنے کرلیا۔
اماں نے بھی سر ہلا دیا اور عینی بھی خوشی کا اظہار کرنے لگی ۔
دو روز بعد میں اور ماریہ اکسیر بھیا کے ہمراہ گاوں کو چل دئیے ۔ باقی سب نے مہندی پے آنا تھا۔
خاندان کی شادی تھی سب ایک دوسرے کو جانتے تھے۔
ہم رات دیر  سے پہنچے تو پھپھونے ڈانٹنا شروع کردیا۔
کیا ہوگیا تم لوگوں کو۔ اتنی دیر سے کیوں نکلے تھے گھر سے؟ رات ڈال کر پہنچے ہو ۔ تمہیں نہیں پتا راستے میں روز لوگ لوٹ لئے جاتے ہیں ۔ اتنا بڑا بانس کا جنگل ہے ۔ سارے مفرور اور ڈاکو ادھر تاڑ میں بیٹھے ہوتے ہیں کب کوئی رات کو گزرے اور اسے لوٹ لیں۔
پھپھو کی ڈانٹ سن کر سب نے انگلی اکسیر بھائی کی طرف کردی جو اس منافقت پہ ہمیں گھور رہے تھے ۔
اگلے روز ہم کھیتوں کی طرف نکل گئے ۔ ادھر ادھر گھومتے پھرتے ٹیوب ویل کے پاس پہنچ گئے۔ اب ہماری پانی پت کی جنگ چھڑنے کا وقت ہوگیا ۔ایک دوسرے کو پانی میں دھکیلنا اور پانی اچھالنے کا سلسلہ دیر تک جاری رہا ۔
شام تک ہم نے خوب مزہ کیا اور اب بھوک ستانے لگی تو ہم گھر کو چل دئیے ۔
پھپھو نے پھر ہماری کلاس لی ۔
ادھر سارا گاوں ڈھولکی واسطے جمع ہوا پڑا ہے اور تم گھر کی لڑکیاں ہی گھر پہ نہی ہو۔۔۔
پھپھو نے اور بھی بہت کچھ کہا لیکن ہم کانوں پہ ہاتھ دھرے
آہستہ آہستہ کچن کی طرف بڑھ گئے۔
مٹھائی نظر آئی تو فوری طور پر وہی کھا لی۔
ہائے باجی۔۔۔ کھانا ٹھنڈا کردیا آپ نے ۔۔ اتنا دیر سے آئے ہیں ؟ گاوں کی نائن(شادی بیاہ پہ کام کاج کیلئے بلائی جانے والی عورت) تھوڑی پہ انگلی رکھے ایسے حیران ہورہی تھی جیسے ہم نے کوئی انوکھا کام کردیا ۔
یہی کچھ تو کرتے تھے ہم ۔ گاوں جائیں تو گھر پہ کون بیٹھتا ہے ۔
اچھا دے جلدی جلدی کھانا۔۔۔ بھوک لگ رہی ہے ۔
ہم سب نے اسے کھانا لانے کو کہا اور خود منہ ہاتھ دھو کر کپڑے بدلنے چلے گئے ۔
کھانا کھا کر سب برآمدےمیں جمع عورتوں کے بیچ جابیٹھے۔
ماہیے اور ٹپے سن رہے تھے ۔ کچھ سمجھ آرہی تھی کچھ اوپر سے گزر رہا تھا۔
ماہی آوے گا ۔۔۔۔ جب یہ ڈھولکی شروع ہوئی تو ماریہ کو صبر نہ آیا اور وہ اٹھ کر ناچنے لگی ساتھ ہی مجھے بھی گھسیٹا ۔۔۔ لیکن مجھ سے نا ہوا اور بس میں تالیاں بجاتی رہی یا کبھی کبھار اس کے ساتھ کچھ چکر لگا لیتی رہی ۔
رات دیر تک ڈھولکی چلی اور پھر کھانا کھلا کر گاوں والوں کو رخصت کردیا۔
کچھ دن گزر گئے اور مہندی کا فنگشن شروع ہوگیا۔
سب نے پیلے اور سبز رنگ کے کپڑے بنوائے تھے ۔۔۔
مجھے سارا وقت ایسا محسوس ہوتا رہا کہ جیسے کوئی تعاقب کررہا ہے ۔ جہاں جاتی تھی لگتا تھا جیسے کوئی نگاہ میرے تعاقب میں ہے ۔لیکن کون ؟ اور کیوں؟
جب بھنگڑے میں مجھے گھسیٹ کر لے گئے تو مجبورا ساتھ دینا پڑا ۔۔ ہم ہنس رہے تھے ۔۔۔ گا رہے تھے اور اسی دوران نجابے کہاں سے میرے اندر ایک تیز لہر اٹھی اور میں دائرے کے درمیان آگئی ۔۔۔
ڈھول کی دھمک اور پاوں ایک ساتھ ایسے بج رہے تھے کہ کسی نے میوزک بند کردیا اور صرف ڈھول کی آواز گونجنے لگی ۔۔۔
میں نے ساری لڑکیوں کی طرح پراندہ بھی بالوں میں ڈال رکھا تھا اور چوڑیاں بھی پہنی تھیں۔۔ پاوں میں ہم نے جھانجھر اور کانوں میں جھمکےبھی پہنے تھے ۔۔
ڈھول کی تھاپ پر ناچتے ہوئے مجھے عجیب سا سرور مل رہا تھا ۔۔۔ اچانک مجھے لگا کوئی دیکھ رہا ہے ۔۔ بے فکر مست ملنگ کو اچانک جھٹکا لگا اور میرا جھمکا کانوں سے نکل کہیں جاگرا ۔۔ کسی نے میرا پراندہ زور سے جھٹکا اور وہ تیزی سے میرے گلے کے گرد لپٹ گیا ۔۔۔
میرا سانس جیسے رک گیا تھا ۔۔۔ میں زمین پہ جاگری ۔۔ ڈھول کی آواز رک گئی۔۔ سب میری طرف بھاگے ۔۔ حواس بحال ہوئے تو ماریہ کی آواز سنی جو بار بار پوچھ رہی تھی ۔۔۔
میرو کیا ہوا ؟ کچھ بولو تو سہی ۔۔۔کیا ہوا ؟
اکسیر بھیا آگئے تھے اور گاوں والوں کو گھروں کو رخصت کردیا گیا ۔۔
کپڑے بدل کر جب ہم کھانا کھانے لگے تو مجھے لگا کوئی دیکھ رہا ہے ۔۔ لیکن کہاں؟ مجھے کوئی نظر کیوں نہیں آتا ؟ یہ سوال میرے ذہن میں ہلچل مچا رہا تھا کہ کون ہے اور کدھر ہے ؟
رات بستر میں گئی تو سب باری باری پوچھنے آئے ۔ پتا نہیں کیوں لیکن سب کے چہرے پہ تشویش تھی ۔
مارو۔۔۔ میں نے ماریہ کو ہلایا وہ جاگ رہی تھی ۔ ہاں کیا ہوا ؟
یار یہ سب کیوں پریشان ہیں ؟
ماریہ ایکدم اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔۔ آنکھیں حیرت سے جھپکاتے  ہوئے بولی ۔۔۔ تجھے نہیں پتا ؟
میں حیران سی اسے دیکھنے لگی اور نفی میں سر ہلایا ۔۔
جو تو ناچتے ہوئے گری تھی ۔۔ تجھے یاد نہیں ؟ وہ بولی
ہاں وہ تو یاد ہے لیکن ۔۔۔۔
اف خدایا ۔۔۔ وہ کانوں پہ ہاتھ رکھ کر جھرجھری لیتے ہوئے بولی ۔۔۔ تم کس طرح اچھل کر اتنی دور گئی ۔۔ میری تو کیا کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا۔۔۔
مطلب؟ اب میں اٹھ کر بیٹھ گئی تھی
مطلب ۔۔۔ ؟ ماریہ نے تعجب سے کہا ۔۔۔ تم کو پتا ہے کچھ ؟
یار کیوں تنگ کررہی ہو ۔۔۔ کیا ہوا جو مجھے نہیں پتا ؟ میں جھلا گئی تو پھر ماریہ نے پورا قصہ سنایا جسے سن کر میں چکرا گئی ۔۔۔
یہ کیسے ممکن ہے ماری؟
مجھے کیوں یاد نہیں ؟
چلو اٹھو مجھے وہ جگہ دکھاو ۔۔۔ میں نے لحاف ایک طرف کیا تو ماریہ نے مجھے پکڑ لیا اور غصے سے بولی ۔۔
خدا کا خوف کر میرو۔۔۔ آدھی رات کو اس ویران احاطے میں کون جاتا ہے ؟ کوئی جن بھوت پکڑ لے گا تو جان چھڑانا مشکل ہوجائے گی اور گاوں کا مولوی ڈنڈے مار مار کر بھوت کی بجائے تیرا بھرکس نکال دے گا ۔۔
ماریہ اب ڈرے ڈرے انداز سے دیکھ رہی تھی جیسے میں کوئی بھوت ہوں ۔
اب ایسے کیا دیکھ رہی ہو ؟ میرے سوال پہ وہ کچھ جھجک کر بولی ۔۔۔
میرو ابھی تک میں نے یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ تیرے اندر کوئی جن بھی آسکتا ہے ۔۔ کہیں ۔۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی میری ہنسی نکل گئی اور پھر ہم دونوں نے ہنسنا شروع کردیا اور اتنا ہنسے کے پھپھو کی آواز آگئی۔۔
دونوں کھسیانی بلی کی طرح بستر میں گھس گئیں ۔
اگلی صبح ناشتے کے بعد ہم بارات کی تیاری کررہے تھے کہ مجھے لگا جیسے کوئی مجھے دیکھ رہا ہے ۔۔ میں نے تیزی سے پلٹ کر دیکھا تو گاوں کی دو عورتیں میری طرف سہمی ہوئی نگاہوں سے دیکھتی ہوئی باتیں کررہی ہیں ۔ مجھے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر ایکدم گھبرا گئیں اور ادھر ادھر کام کرنے لگیں ۔
بارات ساتھ کے گاوں جانی تھی سو دوپہر کو ہی جانا تھا ۔
ڈھول باجے اور بگھی کے ساتھ بارات دلہن کو لینے پہنچ گئی ۔ خوب رسمیں چل رہی تھیں ۔۔ سب انجوائے کررہے تھے تب مجھے لگا جیسے میری گردن میں درد ہے اور یکدم درد کی شدت میں تیزی آگئی اور میں ایک طرف بیٹھ گئی ۔۔
ماریہ مجھے ڈھونڈتی آگئی ۔۔۔
یار ادھر کیوں بیٹھی ہے چل دودھ پلائی کی رسم ہے ۔۔۔ وہ مجھے بازو سے پکڑ کر اٹھانے لگی کہ اسے جھٹکا لگا ۔۔
مجھے ہوش نہ رہا کہ پھر کیا ہوا ۔۔
ہلکی ہلکی سی آوازیں آرہی تھیں۔۔۔
میں نے آنکھ کھولی تو سر میں شدید درد تھا اور نقاہت محسوس ہورہی تھی ۔۔
تیز تیز آوازیں آنے لگیں اور کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا ہورہا ہے  ۔
چند گھنٹے گزر گئے تو مجھے اپنے آپ سے الجھن کا احساس ہوا ۔۔ ماریہ میرے پاس تھی ۔۔ وہ شاید سمجھ گئی تھی ۔
مجھے نہانا تھا پسینے کی چپچپاہت محسوس ہورہی تھی ۔
نہا دھو کر کھانا کھایا اور پھر مجھے نیند آگئی ۔۔۔
اگلے روز جب میں اٹھی تو بہتر محسوس کررہی تھی ۔
ماری ۔۔۔ میں نے آواز لگائی تو ماریہ دوڑتی ہوئی آگئی۔۔
یار بھوک لگی ہے ۔۔ ناشتہ لاو ۔۔
ہم دونوں ناشتہ کرنے لگے ۔۔ میں نے ایک پراٹھا آملیٹ کے ساتھ کھایا اور پھر دوسرا اور تیسرا کھا کر جب ادھر دھر دیکھنے لگی کہ مزید مل جائے ۔۔۔ تب ماریہ کا رنگ بدلنے لگا ۔۔
اب وہ خوفزدہ نظر آرہی تھی ۔۔
کیا ہوا؟ میں نے چائے کا کپ منہ سے لگاتے ہوئے اسے دیکھا ۔
وہ کچھ نہ بولی بلکہ مجھ سے کچھ دور ہوگئی ۔۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو ۔۔ بھوک لگی ہے نا۔۔ میں نے لاپرواہی سے کہا تو وہ بولی ۔۔
تین پراٹھےکھا کر ابھی تو اور ڈھونڈ رہی ہے ۔۔۔ کبھی ایسا کیا تونے ؟
اچھا تو اتنے دن بستر پہ بھی تو پڑی رہی نا بخار میں ۔۔۔ کمزوری ہوگئی ہے بھوک لگ رہی ہے اس میں حیران ہونے کی کیا بات ؟
میری بات سے ماریہ کی تسلی نہ ہوئی اور وہ یہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔ مولوی صاحب ٹھیک کہتے ہیں ۔۔ تجھے جنات نے پکڑ لیا ہے ۔۔۔ ورنہ اس روز ایسے ہوا میں اڑ کر کیسے گئی ؟
میں ایکدم چونکی۔۔۔
ماری چل مجھے وہ جگہ دکھا ۔۔۔ میں نے جھٹ اس کا ہاتھ پکڑا تو اس کی چینخ نکل گئی ۔۔۔
نہ نہ ۔۔۔میں نہیں جاونگی ۔۔۔ وہ چلانے لگی تو اکسیر بھیا آگئے
آہ۔۔۔ آپ کی شادی ہو بھی گئی ۔۔۔ میں نے ماری کا ہاتھ چھوڑ کر اکسیر بھیا کی طرف توجہ کرلی۔۔۔
ہاں ۔۔۔ تم بارات پہ بیہوش ہوئی اور آج تین روز بعد ہوش میں آئی ہو۔۔۔
یہ ایک اور بم مجھ پہ گرا ۔۔۔ تین روز ؟ میں حیران سی ہوگئی۔۔ ماریہ کو دیکھا جو اپنی کلائی بار بار دیکھ رہی تھی ۔ وہ اور بھی خوفزدہ لگ رہی تھی ۔
آخر یہ سب کیا ہے ؟ میں نے جھلا کر کہا تو ماریہ نے میرے سامنے اپنا ہاتھ کردیا ۔۔
یہ دیکھو ۔۔ کتنی زور سے پکڑا ہے تم نے  ۔۔۔ اس کی کلائی پہ میری انگلیاں چھپی ہوئی تھیں ۔
مجھے افسوس ہونے لگا اور میں نے اس سے معذرت کیلئےاسے گلے لگانا چاہا لیکن وہ بھیا کے پیچھے چھپ گئی۔۔۔
اکسیر بھیا شرمندہ سے ہوگئے ۔۔۔ ماریہ کچھ نہیں ایسا ۔۔ مولوی صاحب یونہی کہہ گئے ہیں بھلا یہ کونسا دور ہے جنوں بھوتوں کا ۔۔۔
اکسیر بھیا کی بات سن کر مجھے یہ تو سمجھ آگئی تھی مجھے بھوت سمجھا جارہا ہے لیکن کیوں؟ یہ سوال اہم تھا ۔
اکسیر بھیا ۔۔ پلیز آپ مجھے ساری بات بتائیں اور وہ جگہ دکھائیں جہاں میں گری تھی ۔۔۔
اتنی دیر تک دلہن بھی آگئی ۔۔۔ میں نے بڑھ کر بھابھی کو پیار کیا تو لگا جیسے وہ ڈر رہی تھی ۔۔۔ وہ سہمی ہوئی نگاہوں سے اکسیربھیا کو دیکھنے لگی ۔۔۔
تم جاو ۔۔ میں آتا ہوں ۔۔ بھیا نے اسے بھیج دیا تو ماریہ میرے پاس آگئی ۔۔۔ اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ مجھے سب ایسے دیکھ رہے ہیں ۔۔
چلو آو ۔۔۔ وہ مجھے اشارے سے بولی تو اکسیر بھیا بھی ساتھ چل پڑے ۔۔
مہندی کا فنگشن ہم نے بڑے تایا کی ویران حویلی میں کیا تھا ۔جہاں برسوں سے کوئی نہ رہ رہا تھا اور نہ ہی جاتا تھا ۔
تایا کے سات لڑکے اور بیگم اسی گھر میں فوت ہوئے تھے ۔ پھر تایا اپنے دو بچوں کو لے کر شہر چلے گئے جہاں انہوں نے مستقل گھر بنا لیا ۔۔
اس گھر کو صرف اس وقت کھولتے جب گاوں میں سارا خاندان جمع ہوتا اور کوئی ضرورت پیش آتی ۔ اسی لئے مہندی کے فنگشن کیلئے بھی اسے کھولا گیا تھا تاکہ رات تک کسی کو مسئلہ نہ ہو۔
ہم جب وہاں پہنچے تو ابھی تک پھول پتے اور سجاوٹ بکھری پڑی تھی ۔۔۔ کسی نے ابھی تک صفائی نہ کی تھی ۔
ماریہ نے اشارہ کیا ۔۔۔ وہ دائرہ تھاجہاں ہم ڈانس کر رہے تھے ۔۔۔ اور یہ جگہ ہے جہاں تم آن گری ۔۔
ماریہ نے جب دونوں مقامات کی طرف اشارہ کرکے بتایا تو میرے دماغ کو بجلی کا جھٹکا سا لگا ۔۔۔
فلیش بیک ہوا ۔۔۔ مجھے نظر آنے لگا کہ میں ناچ رہی تھی ۔۔ ہنس رہی تھی ۔۔ آسمان کی طرف چہرہ کیا تھا ۔۔۔ پھر ۔۔
بس پھر کیا ہوا؟
میں اب ذہن پہ زور دینے لگی ۔۔۔ آہستہ آہستہ پیچھے جانے لگی ۔۔۔ ریورس سوچنے لگی ۔۔ آسمان کو دیکھنے سے پہلے ۔۔ کوئی تیز نگاہ مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔
پھر ایک تیز روشنی میری آنکھوں کے سامنے لپکی۔۔۔
ہائے ۔۔۔ میرے منہ سے چینخ نکلی ۔۔
کیا ہوا؟ کیا ہوا ؟ماریہ اور اکسیر بھیا دونوں نے مجھے پکڑ لیا ۔۔ میں اس جگہ کو دیکھ رہی تھی جہاں گری تھی ۔۔۔
وہاں ۔۔۔ میں نے انگلی کا اشارہ کیا ۔۔ وہاں کوئی کھڑا تھا
ماریہ خوفزدہ ہوگئی ۔۔۔ چلو چلو۔۔۔ وہ مجھے دھکیلنے لگی
اکسیر بھیا کے چہرے پہ بھی اب خوف تھا ۔
نہیں ۔۔ نہیں ۔۔ میں نے خود کو چھڑایا ۔۔ پہلے مجھے سمجھنے تو دو ۔۔۔ یہ چار گز دور میں کیسے جاگری ؟
ارے بابا ۔۔۔ ادھر سے تو چلو ۔۔۔ پھر سمجھتی رہنا ۔۔ وہ دونوں مجھے گھسیٹ کر لے گئے ۔
اپنے گھر داخل ہوئے تو ماریہ ٹوائیلٹ کو بھاگی ۔۔۔
اکسیر بھیا کی حالت بھی غیر تھی ۔
مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں اتنے دور کیسے جاگری ؟
اکسیر بھیا نے میرے ہاتھ پکڑ لئے ۔۔ یہی تو سب کیلئے پریشانی بن گیا ہے کہ اس روز کسی کو بھی سمجھ نہیں آئی کہ تم کیسے اتنا دور جاگری ۔۔۔
میں نے پھر ذہن پہ زور ڈالا ۔۔۔ اکسیر بھیا ۔۔۔ میں خود نہیں گری تھی ۔۔۔ کسی نے میرا پراندہ پکڑ کر کھینچا تھا ۔۔۔ وہ اس جگہ جہاں مجھے کسی کی نگاہیں گھورتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں ۔۔۔
میں نے یہ بات کہی تو اکسیر بھیا کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔۔۔
یہی تو مولوی صاحب نے کہا تھا ۔۔۔ وہ بولے
کیا کہا تھا ؟ میں نے  بےتابی سے پوچھا
وہ ۔۔۔ وہ ۔۔ بھیا جھجک رہے تھے کہ ماریہ آگئی۔۔ وہ بولی
مولوی صاحب کہتے ہیں کہ تایا کے لڑکے کی روح ہے جو اس کا پیچھا کررہی ہے ۔۔۔
مجھے قطعا یہ امید نہ تھی کہ مجھے یہ بات سننے کو ملے گی ۔۔ میں بے یقینی سے دونوں کو دیکھنے لگی جو اب کچھ سر کھجاتے نظر آرہے تھے ۔۔
سیریسلی؟ میں نے حیرت سے بھیا کو دیکھا تو وہ کندھے آچکا کر بولے ۔۔۔ یہی کہا تھا مولوی صاحب نے ۔
توبہ ہے ۔۔۔ میں نے سرجھٹکا اور کچن کی طرف چل پڑی ۔۔
ابھی تو کھایا ہے تم نے۔۔ ماریہ میرے پیچھے پیچھے آگئی ۔۔
تمہیں کیا مسئلہ ہے ۔۔ کیوں میری روٹیاں گن رہی ہو؟ مجھے غصہ آگیا
وہ ہنسنے لگی ۔۔۔ مولوی صاحب نے غلط کہا ۔۔ روح نہیں ۔۔ کوئی بھوکا جن آگیا ہے تمہارے اندر ۔۔
میں تیزی سے پلٹی اور ڈراونا چہرہ بنا کر زور سے ۔۔ ہاو ہاو کیا ۔۔۔ ماریہ نے چینخ ماری اور کچن سے بھاگ گئی ۔
اس رات وہ میرے ساتھ نہ سوئی البتہ صبح ہماری واپسی تھی تو رات ہم نے پیکنگ کرلی تھی ۔
امی ابو پھپھو کے ساتھ نکل گئے تھے ۔۔۔
آخر میں ماریہ میں بھابھی اور بھیا رہ گئے ۔۔ دروازے بند کرکے چابیاں دوسرے چچا کے حوالے کیں ۔۔
کار جب تایا کی حویلی کے سامنے سے گزری تو میرا دل چاہا کہ ایک نظر پھر اس احاطے کو دیکھ لوں۔
بھیا کچھ دیر رک جاو ادھر ۔۔۔ میں نے بھیا کو روکا تو بھابھی کا رنگ اڑ گیا ۔۔۔
کیا کروگی ؟ اب تو صفائی بھی کرادی ہے ہم نے ۔۔۔
میرا جھمکا ملا تھا کسی کو ؟ مجھے اچانک خیال آیا کہ وہ بھی وہیں گرا تھا ۔۔
ماریہ نے مجھے چپت لگائی ۔۔۔ اب تو جھمکا ڈھونڈنے جائے گی ؟
نہیں یار ۔۔ لیکن دیکھنا تو چاہیے نا ۔۔وہیں پڑا ہوگا ۔
اچھا تو جا میں نہیں جارہی  ۔۔ ماریہ ڈر رہی تھی
بھیا نے دروازہ کھولا اور بولے ۔۔ اچھا چلو ۔۔ میں چلتا ہوں۔
ہم دونوں احاطے میں داخل ہوئے تو اس وقت دوپہر کا وقت تھا۔ میں نے ایک بار بھرپور جائزہ لیا تو پوری حویلی میں اینٹوں کے فرش پہ کہیں کہیں نیم اور ٹالی کے پتے بکھرے تھے اور کمروں کے باہر تالے پڑے تھے ۔۔
بھیا ادھر ادھر دیکھنے لگے ۔۔۔ وہ میرا جھمکا ڈھونڈ رہے تھے اور میں اس جگہ کو دیکھ یہ سمجھنے کی کوشش کررہی تھی کہ اس جگہ سے اس جگہ تک اڑ کر ہی کوئی پہنچ سکتا تھا ورنہ محض اچھل کر گرنے سے بھی اتنا دور آگرنا ممکن نہ تھا ۔۔۔
بھیا کو جھمکا نہ ملا اور ہم واپسی کو پلٹے ۔۔۔ سورج سوا نیزے سے اتر چکا تھا ۔۔۔
میں دہلیز سے قدم اٹھا رہی تھی لیکن میرے قدم بھاری ہوتے جارہے تھے ۔۔ بھیا باہر نکل گئے تھے ۔۔تب مجھے سرگوشی سنائی دی ۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کیونکہ اس کی کوئی سمت نہ تھی ۔۔۔ پھر آواز ابھری اور میرے بدن کو سرد لہر ٹکرا گئی ۔۔۔
آواز کی کوئی سمت نہ تھی صرف کسی کے دیکھنے کا احساس تھا ۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں پلٹ کر دیکھتی ۔۔۔بھیا واپس آگئے ۔۔۔
تم کیوں رک گئی ہو ؟ وہ حیران سے مجھے دیکھ رہے تھے
اوہ ۔۔۔ کہاں سے ملا جھمکا ؟ وہ میرے ہاتھ کی طرف دیکھ کر بولے ۔۔۔
ہیں ۔۔۔ میں نے تعجب سے ہاتھ میں پکڑے ہوئے جھمکے کو دیکھا جو پتا نہیں کیسے میرے ہاتھ میں آگیا تھا ۔۔
بھیا مجھے باہر لے آئے ۔۔ ہم واپس گھر کو چل پڑے لیکن میں الجھ گئی تھی ۔۔۔ آخر یہ سب کیا ماجرہ ہے ؟
شہر واپس آکر سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہوگئے۔ گھروالے میری وجہ سے فکرمند تھے اور بھیا نے کچھ ڈاکٹرز سے رابطہ کیا ۔
ماہر نفسیات نے معائنہ کیا اور کچھ دوا دے کر بھیا کو الگ سے کچھ ہدایات دیں۔
مجھے بتایا گیا کہ یہ سارے واقعات کسی جن بھوت کی وجہ سے نہیں بلکہ مجھے کسی ذہنی دباو کا سامنا تھا ۔ یہ بات میرے لئے تعجب کی تھی لیکن مجبورا دوا کھانی پڑی۔
اب میرا زیادہ وقت سونے میں گزرنے لگا ۔۔ یاداشت بھی خراب سی ہوگئی۔۔ کتابوں سے بھی دوری ہوگئی۔
اماں اداس رہنے لگیں اور بھیا بہت زیادہ خاموش ہوگئے ۔
میرو۔۔ میرو ۔۔۔ کوئی مجھے جھنجھوڑ رہا تھا ۔۔
آنکھ کھلی تو ماریہ حواس باختہ نظر آئی ۔۔ میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ کیا ہوا؟
وہ سلیم ۔۔ سلیم ۔۔۔ سلیم ۔۔۔ اب ماریہ کو جیسے بریکیں لگ گئیں تھیں۔۔
کیا سلیم؟؟ میں نے بیزاری سے کہا۔
اس کا۔۔۔ وہ سلیم کو ۔۔ سلیم کی ڈیتھ ہوگئی میرو ۔۔۔
وہ اتنی مشکل سے بولی کہ میں اسے حیرت سے دیکھتی رہی ۔
وہ مجھے ہمدردی سے دیکھ رہی تھی ۔۔ اسے لگا کہ شاید میں اب بھی سلیم کے انتظار میں بیٹھی ہوں۔
میں نے میرو کو ایک نظر دیکھا ۔۔ سپاٹ لہجے میں کہا۔
کون سلیم ؟  افسوس ہوا سن کر ۔۔
اور میں پھر بستر پہ۔لیٹ گئی ۔۔ کچھ ہی دیر میں پھر سو گئی۔ مجھے سلیم کی موت کا سن کر ذرا بھی دکھ۔نہ ہوا تھا ۔ سال بھر اس نے میرے والدین کو اذیت میں رکھا اور میرے بھیا کا خون کھولایا تھا۔۔ مجھے کوئی افسوس نہیں تھا ۔۔ قدرت نے اپنا انتقام خود ہی۔لے لیا تھا۔۔ جس طرح اس کی موت ہوئی وہ بہت اذیت ناک کہانی تھی ۔
سلیم پاکستان آیا اور ہمیں بتایا بھی نہ  اور پاکستان میں اس کے ساتھ کسی لڑکی کو دیکھا گیا تھا ۔ بھیا کو اس بات پر غصہ تھا اور وہ اسے سبق سکھانا چاہتے تھے ۔
اختر لالہ بھیا کو سمجھا رہے تھے کہ اس معاملہ کو اس طرح غصے سے حل نہیں کرنا ۔۔ بلکہ خاندانی بڑوں کی بیٹھک میں سلیم کو اس کی ماں کے ساتھ بلائیں گے اور پھر سارے حساب برابر کریں گے ۔
بھیا کا غصہ کسی طرح کم نہیں ہوتا تھا ۔۔۔
مجھے دیکھ کر وہ بہت ندامت محسوس کرتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ مجھے سلیم کی بےوفائی کا غم ہے جو میں بیمار پڑ گئی تھی ۔ وہ بار بار خود کو کوستے تھے جو مجھے منگنی پہ آمادہ کیا  تھا۔
میں نے کئی بار کہا کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی میرے ذہن پہ کوئی دباو ہے ۔ میں تو صرف آپ کی تسلی کیلئے دوا کھا رہی ہوں جبکہ مجھے ایسی کوئی ضرورت نہیں ۔
بحرحال اس روز بھیا کا کرب دیکھ کر مجھے بہت غصہ آرہا تھا اور میں تصور میں سلیم کو کسی اونچے مقام سے دھکادے رہی تھی ۔۔ مجھے سلیم کی موت کی بجائے اس بات کی حیرت تھی کہ سلیم کی موت بھی پہاڑی سے لڑھک کر ہی ہوئی تھی البتہ اس کی تلاش کے باوجود 24 گھنٹے تک کسی کو پتا نہ چلا کہ وہ کہاں گرا تھا ۔۔ ساری رات وہ کسی شاخ سے لٹکا رہا اور اس دوران جانور اس پہ حملہ کرتے رہے ۔۔۔
اس کے پوسٹ مارٹم میں اذیت ناک موت کا بتایا کہ وہ زندہ تھا جب جنگلی درندوں نے اسے نوچا اور خون بہہ جانے سے ہی موت واقع ہوئی تھی۔ مجھے یہ سن کر جیسے سکون سا آگیا تھا ۔
خاندان والے اداس تو تھے لیکن اسے مکافات عمل بھی جان رہے تھے کہ دولت کے نشے میں دونوں ماں بیٹے نے ایک لڑکی کی زندگی برباد کی تھی ۔
اس کے بعد خاندان میں خاموشی ہوگئی ۔ مجھے طعنے دینے والے اب توبہ کرتے نظر آتے تھے ۔۔۔۔ البتہ سب کا اس طرح معذرت خواہانہ رویہ اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔۔
بھیا کو کہا کہ کچھ دن گاوں لے جائیں ۔
بھیا نے مصروفیت کا ذکر کیا کہ وہ چچا سے پوچھ لیں گے کہ وہ چلے جائیں تمہارے ساتھ ۔۔ میں خوش ہوگئی کہ چلو ماریہ اور چچا کے ساتھ میری بنتی بھی بہت ہے ۔
اگلے روز ماریہ آگئی ۔۔ وہ خوش نظر آرہی تھی کہ پھر گاوں جائینگے اور ان دنوں۔موسم بھی اچھا تھا۔

ایک بار پھر ہم تایا کی سنسان حویلی کے سامنے سے گذر رہے تھے۔
پتا نہیں ایسی کیا کشش تھی جو میں اپنے اندر کچھاو سا محسوس کررہی تھی ۔
جی چاہا چچا سے کہوں مجھے ادھر چھوڑ کر خود چلے جائیں لیکن مجھے پتا ہے اس رات کے واقعے کے بعد تو کوئی بھی ایسا کرنے کا سوچے گا بھی نہیں ۔
اف۔۔۔ میرو ۔۔۔تمہاری میڈس تو میں نے وہیں چھوڑ دیں! ماریہ کو اچانک یاد آیا اس نے سر پکڑ لیا ۔۔ 
چچا نے جیپ پھپھو کے گھر کے سامنے روکی اور ماریہ کو گھورا ۔
ابا مجھے یاد نہ رہا ۔۔ بھیا نے ہاتھ میں دی تھی لیکن میں آنے سے پہلے باتھ گئی تو وہیں ڈریسنگ پہ رکھی رہ گئیں۔
ماری ۔۔۔اچھا ہوا یار۔۔میرے منہ کا ذائقہ ہی خراب ہوگیا ہے ۔۔ کوئی بیماری نہی مجھے بس بھیا کی تسلی کے لئے کھاتی ہوں میڈیسن۔
میں نے اسے تسلی دی تو وہ بھی کچھ ریلیکس ہوگئی
ہم گھر پہنچے تو ملازمین نے گھر کی صفائی ستھرائی کرکے کھانا بھی تیار کر رکھا تھا ۔
منہ ہاتھ دھو کر چائے پی اور ساتھ والے احاطے میں چلے گئے وہاں پھپھو کی بکری مرغیوں بطخوں اور خرگوشوں سے کھیلنے لگے ۔۔۔
رات جلدی ہی سوگئےتھکاوٹ تھی۔
اگلی صبح چچا کے ساتھ شکار کا پروگرام تھا تو جلدی جلدی اٹھے۔ناشتہ کرکے میں جوگرز پہن رہی تھی کہ پتا چلا گاوں میں فوتگی ہوگئی۔۔ بس اب کہاں شکار ہونا تھا۔۔
کچھ ہی دیر میں ہم بھی میت والے گھر پہ ہی تھے ۔۔چھوٹا بچہ فوت ہوا تھا اس کی ماں بلک بلک  کر رو رہی تھی ۔بچاری کے دو ہی بچے تھے یہ چھوٹا بچہ تھا ۔تیز بخار ہوگیا لیکن ان بچاروں کو سمجھ نہ آئی کہ گردن توڑ بخار ہے ۔۔
میں کچھ فاصلے پر تھی لیکن ایسا لگتا تھا جیسے اس میت کو آنکھیں لگی ہوئی ہیں جو مجھے گھور رہی ہیں۔۔میں کچھ اور دور ہوگئی کہ شاید دوا نہ کھانے سے میرے اعصاب پر اثر ہورہا ہے ۔ لیکن وہ نگاہیں میرا پیچھا نہی چھوڑ رہی تھیں ۔۔۔ میں جدھر جاتی ہر طرف یہی احساس ہورہا تھا کہ کوئی دیکھ رہا ہے ۔۔
ماریہ۔۔ چلو گھر چلو ۔۔ماریہ کو تقریبا گھسیٹتے ہوئے میں نے کہا تو وہ بھی لڑکھڑاتی چل پڑی ۔۔
کیا ہوا ؟ ایسے گھبرائی ہوئی کیوں ہو ؟ میت تو اٹھا لینے دو لوگوں کو۔۔ وہ میرے پیچھے پیچھے تقریبا بھاگتی ہوئی آرہی تھی ۔
اور آہستہ چلو۔۔۔ بجلی بن گئی ہو یار
مجھے اسوقت وہاں سے جانے کی جلدی تھی ۔گھر پہنچ کر میں نے اسے ساری بات بتائی تو اسے لگا کہ غلطی اسی کی ہے جو دوا شہر ہی چھوڑ آئی۔
بس چھوڑو ۔۔۔ تمہاری  صحت ٹھیک نہی سوجاو۔۔ وہ مجھے بستر پہ لٹا کر باہر چلی گئی ۔ مجھے یکدم نیند آگئی اور فورا سوگئی۔
می۔۔رو ۔۔۔۔می۔۔۔۔رو ۔۔۔۔میرے کانوں وہی آواز گونج رہی تھی ۔۔۔ رضائی سے باہر منہ نکال کر دیکھا تو سہ پہر کا وقت ہوچکا تھا ۔
یہ سارے کہاں گئے ؟ گھر خالی تھا ۔ شاید مرگ والے گھر ہوں ۔ یہی سوچ کر میں چھت کی سیڑھیاں چڑھنے لگی ۔
سارے چھت آپس میں ملے ہوئے تھے ۔ کسی کی دیوار تو کسی کا صحن کراس کرکے ہم پورا گاوں پھر آتے تھے ۔۔
اوپر سے دیکھا تو ابھی اس گھر میں بہت رش تھا ۔  ماریہ کو دیکھنے کیلئے اپنے چھت سے دوسرے چھت پہ پھر اس کے ساتھ والے چھت پہ گئی لیکن وہ نظر نہ آئی ۔
سورج اب ڈھلنے کی طرف تھا ۔۔ منظر اچھا لگا تو کچھ دیر وہیں دیوار سے ٹیک لگا کر دیکھنے لگی ۔۔۔
میرو۔۔۔ می ۔۔۔رو ۔۔۔۔ آواز بہت دلفریب تھی ۔۔۔ میرے کانوں میں کوئی بہت محبت بھرے انداز سے سرگوشیاں کررہا تھا ۔۔۔
ایک نگاہ اٹھا کر تایا کی حویلی کو دیکھا جو اس وقت سب سے الگ تھلگ پر کشش نظارہ پیش کررہی تھی ۔۔
میں چھتوں سے گزرتی ہوئی جب حویلی کے بالکل سامنے آگئی تو ایک جھٹکے سے جیسے ہوش آگیا ۔۔۔دل دھک سے رہ گیا ۔۔ میرا قدم اگر اٹھ جاتا تو بہت اونچائی سے اینٹوں سے بنے فرش پہ جاگرتی اور وہیں مر بھی جاتی ۔۔ کسی کو خبر بھی نہ ہوتی ۔
وہ حویلی تو سب سے الگ تھی ۔۔  کوئی چھت اس کی چھت سے نہی جڑتی تھی ۔۔۔ صرف ایک دیوار تھی جس پہ خاردار بوٹی پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔
میں گھبرا کر رک گئی ۔۔۔ پلٹنے ہی والی تھی کہ اس ٹالی کے درخت سے دو  آنکھیں مجھے گھورتی محسوس ہوئیں ۔۔۔ ابکہ وہ بہت واضح نظر آرہی تھیں ۔۔۔ سبز رنگ والی بڑی بڑی آنکھیں ایسے چمک رہی تھیں جیسے بلی کی آنکھیں رات میں چمکتی ہیں ۔۔۔
میرو۔۔۔ آو۔۔۔ اب آواز بہت صاف تھی ۔۔ بہت پیار سے کوئی بلا رہا تھا ۔۔۔ میں خود کو روک نہ سکی۔۔۔ آگے بڑھ گئی۔۔۔
درخت کے پاس وہ خدوخال ابھرنے لگے ۔۔۔ اب اندھیرا پھیل رہا تھا ۔۔۔ آنکھوں کے اوپر ایک چوڑی سے پیشانی تھی۔۔ جس پہ  کسی شاعر  جیسے بے ترتیب بال بکھرے تھے۔۔۔ قریب ہوئی تو کچھ چہرہ بھی نظر آنے لگا ۔۔۔ 
یہ خوشبو کیسی ہے؟ بہت مانوس ۔۔ دل کو گرفت میں لینے والی خوشبو ۔۔۔
میں درخت کے نیچے کھڑی تھی ۔۔ خوشبو میرے حواس پہ چھا گئی عجیب سا نشہ تھا سرور تھا ۔۔۔ وہ سرگوشیوں میں کچھ کہہ رہا تھا میں سن رہی تھی ۔۔۔ سر درخت سے ٹکائے اس کی گہری آنکھوں میں ڈوبی ہوئی تھی ۔۔ اچانک احساس ہوا ۔۔۔ یہ چہرہ تو اجنبی نہیں۔۔
میں اسے جانتی ہوں ۔۔۔  

No comments:

Post a Comment