Thursday, 23 August 2018

عزت نفس

ہمارے گھر ایک خاتون کام کے لئے آیا کرتیں تھیں ۔امی بہت عزت سے پیش آتی تھیں ۔کام میں بہت رعایت کرتی تھیں۔ خصوصا صفائی کے معاملے میں زیادہ تر امی خود ہی جھاڑو پکڑ لیتیں تھیں ۔ سمجھ میں نہی آتا تھا کہ پھر ان کو کام کیلئے رکھا ہی کیوں تھا ؟
مجھے ان دنوں کتاب پڑھنے کا ایسا خبط سوار رہتا تھا کہ گرمی ہو یا سردی۔۔۔  میں اپنے کمرے میں گھسی رہتی اور ایک کتاب جب شروع کرلیتی تو جب تک اسے پڑھ کر اس میں سے اپنی مرضی کی لائنز اپنی مخصوص ڈائری میں لکھ نہ لیتی تھی ۔۔۔ مجھے کسی دوسری شے سے دلچسپی نہ تھی ۔
کئی بار شدید گرمی سے بیزار ہوکر فرش پہ ہی لیٹ جایا کرتی تھی ۔تب ابھی اے سی والی بیماری زیادہ نہ پھیلی تھی اور اوپر کے پورشن میں صرف بھابھی کے کمرے میں ہی ائیر کنڈیشنر لگا تھا۔
سب نیچے والے پورشن میں دن گزارتے کہ اوپر صحن کھلا ہونے کے باعث دھوپ براہ راست کمروں کے دروازے پر آجایا کرتی تھی اور کسی کی بھی ہمت اسے برداشت کرنے کی نہ تھی البتہ مجھے گرمی کی بھی پروا نہ تھی ۔
بلکہ صرف مجھے کیا اس عجیب وغریب لڑکے کو بھی دھوپ گرمی کچھ نہ کہتی تھی جو ہمارے صحن سے دو گھر چھوڑ کر اوپر والی چھت پہ سارا دن چھپ چھپ کر مجھے دیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔
مجھے کبھی بھی وہ پورا نہ دکھا تھا بس چھت کے ڈیزائن والے سوراخوں سے جھانکتا بانکا نوجوان مجھے کبھی کبھی باولا لگتا تھا جو کڑکتی دھوپ میں سارا دن اوپر ٹنگا رہتا کہ کب میں کمرے سے نکلوں اور وہ مجنوں دیدار کرے ۔
بی بی کی تعظیم کی وجہ دراصل ان کا سید زادی ہونا تھا۔ امی کو ان کی اتنی عزت کرتے دیکھ کر میں نے کسی سے پوچھا کہ سید ہونے میں کیا خاص بات ہے جو ہماری لڑکیاں بھی اپنےخاندان کے سوا اگر کہیں باہربیاہی جائیں تو صرف سید گھرانوں میں اور جب کوئی سید ہمارے گھر آجائے تو احترام میں سیدھی طرف بٹھاتے ہیں اور اکثر تو بھائیوں کو دیکھا کہ وہ ابا جی کے کہنے پہ ان سعادات کے پاوں بھی دبایا کرتے تھے۔
البتہ مجھے کبھی کسی نے نہ کہا اور اگر امی نے کسی سیدہ کی خدمت کے لئے کہا بھی تو میری کنفیوز شکل دیکھ کر ہی سیدہ مجھے منع کردیا کرتی تھیں بلکہ عموما تو مجھے بغل میں بٹھا کر میرے بال سنورنے اور چومنے پر ہی زور دئیے رکھتیں۔ شاید میں شکل سے زیادہ ہی معصوم نظر آتی تھی یا خدا نے میرے لئے لوگوں کی طبیعت میں نرمی رکھ دی تھی۔
کبھی ایسا نہ ہوا کہ میں کچھ کہوں اور لوگ اسے توجہ سے نہ سنیں ۔ کبھی کسی نے میرے خلوص کے جواب میں بے اعتنائی نہ دکھائی تھی۔
اقبال رحمت اللہ علیہ فرماگئے کہ انسان کو درد دل کے واسطے پیدا کیا ۔۔۔ اور پھر سارا درد میرے ہی دل کو دے دیا گیا ۔۔ بس زندگی درد ہی بن گئی ۔
بی بی اچھی خاتون ہیں ۔ لیکن بہت مشکل زندگی ہے بچاری کی ۔ جوان بیٹوں کی موت اور نشئی شوہر نے ان کی کمر توڑ ڈالی تھی ۔ تین جوان بیٹے نشے کی لت میں پڑ کر جان سے گئے اور شوہر بھی کچھ نہ کرتا تھا بلکہ جو وہ کما کر لاتی تھیں وہ بھی چھیننے کی کوشش کرتا تھا کہ نشہ پورا کر لے ۔ 
میری شادی کے بعد مجھے آہستہ آہستہ زندگی کے بہت راز سمجھ میں آنے لگے ۔ بی بی کی مجبوریاں اور مشکلیں سمجھنے لگی تو درد دل کے واسطے سے ان کے قریب ہونے لگی۔ جب کبھی ان کو پیسے دینے لگتی تو پہلا سوال وہ ہمیشہ یہی کرتیں کہ یہ صدقہ و خیرات تو نہی؟ ہم سید خیرات نہیں لیتے ۔ میں ہمیشہ شرمندہ ہوکر کہتی تھی کہ نہیں بی بی جی یہ آپ کے لئے تحفہ ہے جو مرضی لے لی لیجئے اپنے لئے ۔ بھلا میری کیا اوقات کہ سید کی مدد کر سکوں۔۔
بی بی کی لڑکی کی شادی ہوئی تو میرے معاشی حالات کچھ اچھے نہ تھے لیکن دل چاہتا تھا کہ سب کچھ دوں جو اس کی ضرورت ہے۔ لیکن جو ہوسکا وہ کیا اور اللہ نے پردہ ڈال دیا میری غربت اور ان کی اعلی نسبی پر۔ اللہ کا فضل !
پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعلق گہرا ہوتا گیا اور جب کبھی بی بی کسی مشکل میں ہوتیں تو وہ صرف مجھے فون کرواتیں۔ اللہ کی مدد سے ہمیشہ ان کا مسئلہ حل ہوجاتا اور وہ ڈھیر ساری دعائیں دیتیں بلکہ وہ ہر وقت میرے لئے دعا کرنے لگیں اور مجھے ان کی دعا اپنے گرد محسوس بھی ہونے لگی خصوصا جب میں حرم کعبہ کا طواف کررہی تھی تو مجھے لگا کہ یہاں پہنچنا ایسے حالات میں صرف بی بی کی دعاوں کی بنا پہ ہوا ورنہ ہماری تو اوقات مکان کا کرایہ دینے کی بھی نہ تھی۔
بی بی کی صحت بہت خراب ہوگئی اور اب وہ مکمل طور پر گھر بیٹھ گئیں لیکن ڈھیر سارے یتیم پوتے پوتیوں کے خرچےکدھر سے پورے ہوں گے ؟ یہ سوال بی بی کو بے چین کرنے لگا۔
ایک روز فون آیا کہ تمہاری بہت یاد آئی تو سوچا فون کروا لوں۔
میں سمجھ گئی کہ ان کا نسب انہیں اجازت نہی دیتا کہ وہ مدد مانگیں ۔ میں نے صبح آنے کا وعدہ کیا اور سوچنے لگی کہ وعدہ تو کرلیا اب پیسوں کا بندوبست کہاں سے کروں گی ۔
یونہی ایک دوست سے تذکرہ کر دیا کہ آج دل بہت اداس ہے ۔ وہ دوست بھی بہت شاندار خاتون ہے۔خدا نے عاجزی اور انکساری کی مٹی سے گوندھا ہے اسے ۔ وہ صرف محبت کرنا جانتی ہے صرف معاف کرنا اسے پسند ہے اور صرف خدمت کرنا اس کا کام ہے۔ اللہ نے کیسے عمدہ دوست دئیے مجھے کہ صرف اسی ایک نعمت کا شکر ادا کروں تو ممکن نہیں۔
پوچھنے لگی کہ بی بی کے متعلق بتاو کون ہے ؟ مختصرا بتایا کہ بچاری مزدوری کرتی تھی ۔گھروں میں برتن کپڑے دھونے اور استری کے کام کے ساتھ مالش وغیرہ بھی کیا کرتی تھیں ۔اب تو مہروں کی تکلف سے وہ بھی نہیں کرسکتیں۔
میں نے بتایا کہ چاہتی ہوں کہ ہر ماہ کچھ رقم کچن چلانے کو ان کو دے آیا کروں ۔ تاکہ وہ کچھ سکون سے  وقت گزار لیں۔اور رقم بھی میں اپنے کچن کے خرچ کو کم کرکے ہی نکالوں گی ۔
جتنا رزق میرے بچوں کے نصیب میں لکھا ہے اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ اب ان کو دے آیا کروں گی۔ اللہ اسباب پیدا کردے گا اور یوں بھی رزق تو خود مالک نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے تو مجھے کیا فکر ۔
وہ مسکرائییں اور بولیں ۔مجھے بھی ملوا دو کل ان سے ۔
ضرور ضرور ۔۔۔ کیوں نہیں ۔ آپ مل کر بہت خوش ہونگی ۔
بس اگلے روز جب ہم وہاں پہنچے تو میں نے انہیں بتایا کہ اس تنگ راستے میں جا بجا گندگی سے بہت دل گھبرانا ہے ۔ اگر بی بی یہاں نہ رہتی ہوتیں تو کبھی اس جگہ سے نہ گزروں کہ روح بوجھل ہوجاتی ہے اسقدر گند پھیلاہوا ہے ہر طرف۔
وہ مسکراتی رہیں اور عین دروازے پر پہنچ کر میرے ہاتھ میں کچھ پکڑا دیا۔
آہستہ سے میرے کان میں بولیں ۔ میں بھی ان کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔ بس جو میرے بس میں ہوگا ضرور کرونگی بلکہ یہ تو سعادت ہے کہ ہمارے تحفے قبول ہوجائیں۔
اب اس وقت کیا کہتی اور کیا سنتی ۔ گھر میں داخل ہوئے ۔بے ترتیب  اینٹوں کا کچا صحن اور پھٹے ہوئے پردے میرے دل کو کاٹ جاتے لیکن اپنی چادر سے اپنا تن ڈھانپنا مشکل تھا تو یہاں کیا کرسکتی تھی۔
ہم بی بی کے پاس کچھ دیر بیٹھے ۔ وہ مجھے بار بار پیار کرتی تھیں اور میری دوست محبت بھری نگاہوں سے ہمیں دیکھتی تھی۔
اس روز کے بعد پھر ہم دونوں اکثر بی بی سے مل آتے کبھی ان کا حصہ کسی طریقے سے پہنچا دیا کرتے تھے۔
پچلے کچھ عرصے میں حالات ایسےہوئے کہ اچانک مالی مشکل بن گئی ۔ مجھے کچھ رقم جمع کرنے کی ضرورت آن پڑی کہ اگلے چند ماہ میں بہت سی ادائیگیاں  ایک ساتھ کرنا تھیں ۔ یہی کچھ میری دوست کے ساتھ ہوا اور دونوں ہی کچھ مشکل میں آگئے ۔
چند روز قبل بی بی کے گھر سے پیغام آیا کہ ان شوہر کا انتقال ہوگیا ۔ دوست کو ذکر کیا تو وہ فورا تیار ہوگئیں کہ صبح چلیں اور افسوس کرکے آئیں۔
اگلے روز جب ہم گھر سے نکلے تو کہنے لگیں۔ کچھ رقم کا بندوبست ہوسکتا ہے ؟ میں نے انہیں تسلی دی کہ آپ فکر نہ کریں ۔ بی بی کا حصہ ادا ہوجائے گا۔
وہ خوش ہوگئیں اور مجھے کہنے لگیں کہ یہ ادھار رہا ۔ میں ہنسی کہ اللہ کی بندی اس میں ادھار کی کیا بات ۔
نہیں ۔۔۔ تم نے جو ادائیگیوں کی مد میں رکھیں ہیں وہ مت خرچ کرو ۔ مجھے چند دن میں مل جائیں گے تو دے دونگی ۔
آپ سے کہا نا کہ مجھے کچھ مشکل نہیں ۔ بلکہ شاید اس سے زیادہ بھی نکال لیتی لیکن بس تھوڑی سی احتیاط کررہی ہوں جو بالکل میرے مزاج کے برعکس ہے لیکن حالات نے سکھا یا ہے کہ اپنے قدم پہلے جماو اور پھر دوسرے کا ہاتھ تھامو ورنہ دونوں لڑکھڑا جاوگے۔
یہی باتیں کرتے ہم بی بی کے گھر پہنچ گئے ۔ وہی تنگ رستہ اور جابجا جانوروں کا گوبر پہلے سے بھی زیادہ میری طبیعت پہ بوجھ ڈال رہا تھا ۔
ہم بی بی سے افسوس کر کے ان کی ڈھیر ساری دعائیں لے کر وہاں سے پلٹ تو گئے۔ لیکن دل پریشان رہا کہ کاش ریاستی سطح پر سفید پوش لوگوں کی امداد کا کوئی سلسلہ ہوسکے۔
خیراتی اداروں سے عام لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن سید ذات کے لئے کوئی پیکج نہیں ۔ بہت سے تو خیرات بھی لے لیا کرتے ہیں کہ غریب کا کوئی دھرم کوئی ذات نہیں۔ لیکن بہت سے بی بی جیسے بھی ہیں جو چالیس ہزار روپے ملنے پر پوچھتی ہے کہ یہ زکوة تو نہیں ؟ اور جواب اثبات میں ملتا ہے تو پوری رقم ایک لمحہ تاخیر کئے بنا مالک کو واپس پکڑا دیتی ہے اور ہم سب شرمندگی سے سوچ رہے تھے کہ اگر زکوة کی رقم نکالی جاسکتی ہے تو تحفہ کیوں نہیں ؟
سید کی عزت نفس اور اس کے مقام کو سمجھنے کیلئے مجھے بی بی کا کردار بہت متاثر کرتا ہے ۔
آپ نے کبھی خیال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اولاد کے لئے اللہ سے کچھ بھی نہ مانگا ۔۔۔ جب بھی مانگا ۔۔۔ امتی کیلئے مانگا ۔۔۔ کیسی عجیب بات ہے ۔۔۔ جن کے صدقے سے ساری کائنات کھاتی ہے ان کی اولاد کو صدقہ دینے کی کوشش کرتے ہیں ؟
بی بی نے مجھے بتایا کہ نسبت کا کیا اثر ہے کہ بھوک اور پیاس کے باوجود زبان سے امتی کے سامنے سوال نہ کیا ۔
بہت سے لوگوں کو میری سوچ سے اختلاف ہوگا ۔ یقینا حق ہے آپ کا لیکن میری نگاہ میں عزت نفس زیادہ مقدم ہے۔ دوست کی مدد کریں تو اسطرح کے اسے لگے جیسے یہ تو میرا حق تھا ۔
دوست کو کبھی یہ خیال نہ آنے دیں کہ آپ کسی خاص سبب سے اس کی مدد کرتے رہے محض دوستی اور محبت سبب نہیں ۔
دوست کو کبھی یہ خیال بھی  نہ دیں کہ اس نے کیوں آپ سے مدد لی ۔ جبکہ آج اسے اس سبب شرمندگی ہے۔
دوست ہو یا کوئی بھی ۔۔۔ جب مدد کریں تو صرف ایک بات ذہن میں رکھیں ۔ یہ رقم جو آپ کسی کو ادا کررہے ہیں یہ آپ کی تھی ہی نہیں ۔ آپ کی ضرورت سے اوپر جتنی رقم ہے وہ آپ کی نہیں تو کیوں نہ اسے سفید پوش ۔۔۔ ضروت مند وں اور دوستوں میں خوش دلی سے تقسیم کردیں ۔ دل کو وسعت دیں۔ یہ مدد کرنا ۔۔۔ تحفے دینا۔۔ چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال رکھنا ۔۔۔ مشکل وقت کا احساس رکھنا ۔۔ دھیان رکھنا۔۔۔ یہ سب محبت بڑھانے اور پیار پھیلانے کا آسان سا طریقہ ہے ۔
بی بی جیسے بہت سے کردار آپ کے پڑوس میں بھی ہونگے ۔ کبھی فرصت نکال کر پڑوسیوں کی خبر گیری ضرور کریں ۔
آپ سب کے لئے دل سے دعا ہے کہ اللہ اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کرے اور آپ کو آپ کی ضرورت کے مطابق نہیں بلکہ اللہ آپ کو اپنی شان و عظمت کے مطابق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین

No comments:

Post a Comment