Saturday, 1 September 2018

وزیراعظم عمران خان اور طاقتور پاکستان

وزیراعظم عمران خان اور طاقتور پاکستان
سعدیہ کیانی

عمران خان پہ تو تم تنقید کرتے رہتے ہو اب ووٹ کس کو دو گے ؟
ووٹ تو میں عمران خان کو دوں گا ۔۔۔ اس نے دوٹوک جواب دیا ۔
ارے لڑکے سارا وقت عمران کے خلاف بولتے ہو اور اس کی  جماعت کی خامیاں گنواتے رہتے ہو تو ووٹ کیوں دو گے اس کو ؟ یہ کیا ماجرہ ہے ؟
بھئی تنقید اپنی جگہ ۔۔۔ لیکن ملک چلانے کے لئے اس وقت عمران خان کے علاوہ مجھے کوئی مناسب بندہ نظر نہیں آتا ۔ اس کی بات سن کر ہم سب ہنسنے لگے ۔
کچھ نے منافق اور کچھ نے یوتھیا کہا ۔
مجھے اس کی بات کی سمجھ تھی کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے ۔
عمران کو دو طرح کے لوگوں نے ووٹ دیا ۔ ایک وہ جو عمران خان کے نظریہ پر یقین رکھتے تھے کہ عمران اس ملک کے سسٹم کو  بدلے گا اور جو وعدے کئے ہیں وہ پورے کرے  گا ۔
دوسرے وہ تھے جنہوں نے عمران خان کی بجائے ہمیشہ دیگر جماعتوں کو ووٹ دئیے لیکن بد سے بدتر سے تنگ آکر محض اسلئے کہ عمران خان کے سوا اب دوسرا کوئی آپشن نہیں اور یہ لوگ قطعا عمران خان پہ یقین نہیں رکھتے بلکہ یہ گزشتہ تجربات سے زچ ہوکر ایک تجربہ کرنا چاہتے تھے ۔
ویسے میرا ماننا ہے کہ کچھ بھی نیا کرنے کیلئے اس پر یقین پہلی شرط ہوتی ہے ۔ یہ لوگ نہ بھی مانیں عمران خان نے ضرور ان کو یقین دلا دیا تھا کہ وہی اب امید ہے ۔
عمران خان کو لوگوں نے بہت پیار کیا ہے ۔ اس کا ڈٹ جانا ۔۔ کھری بات کہنا اور عام آدمی کی طرح سادہ سا انداز لوگوں کو بہت پسند ہے ۔
عمران خان کو جہاں اس کے چاہنے والوں نے ووٹ دیا وہیں اس کے ناقدین اور ناپسند کرنے والوں نے بھی ووٹ دیا ۔۔اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ۔۔
وطن عزیز کی معیشت اور معاشرت کی تباہی نے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ اس کا شعور جہاں کچھ دانشور اور صحافیوں نے دیا وہیں ہم جیسے بہت سے سوشل میڈیا پہ لکھنے والوں نے بھی اس شعور اور آگہی مہمط میں اپنا حصہ ڈالا ۔
گو کہ ابھی قوم بننے کا عمل شروع ہوا ہے لیکن امید ہے کہ جاری رہے گا ۔
عوام کو ان کی مشکلات کا زمدار ڈھونڈنے میں وقت لگا لیکن اس کا سہرا خود ان کرپٹ سیاستدانوں کے سر ہے جنہوں نے #پانامہ جیسے کیس بنوا لئے اور پھر اپنے رویے سے یہ بھی ثابت کیا کہ عوام کو حق نہی کہ سوال کریں ۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے عام آدمی کے لئے ایکشن لیا اور بہت ساری گالیاں سننے کے باوجود ڈٹے رہے ۔ ان کا یہی رویہ اس آدمی کی سوچ بدلنے کا سبب بنا ۔
جب لوگوں نے دیکھا کہ ایک جج ہماری مشکلات کم کرنے کی خاطر خود مشکل میں گھر گیا تو کچھ احساس ہوا کہ ہم ہی ظالم ہیں جو اپنی ذات پر ظلم کررہے ہیں ۔
بس یہی شعور درکار تھا ۔
2013 کے دھرنے میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ زرداری حکومت کے جانے سے پہلے ہی ہم اس نظام سیاست کی تبدیلی کا مطالبہ کریں گے اور 62 /63 کو نافذ العمل بنائیں گے ۔ تاکہ صرف وہی لوگ پارلیمنٹ تک پہنچیں جو ایمان دار اور محب وطن ہوں ۔ جن کے دامن پہ داغ نہ ہو جو کردار میں مضبوط ہوں۔
جب طاہرالقادری صاحب قافلہ لے کر اسلام آباد کو چلے تو عمران خان کے ساتھیوں نے عمران خان کو اس دھرنے میں ساتھ نہ دینے پر قائل کرلیا ۔
اس وقت ملک کے حالات اس قدر خراب تھے کہ لوگ اسلام آباد جیسے سیکیور شہر میں بھی ڈرے رہتے تھے کہ کیا پتا کب کوئی بارود سے بھری گاڑی ان کے گھر کی دیواروں سے ٹکرا جائے اور سب تباہ ہوجائے ۔
اس وقت جی ایچ کیو پہ بھی حملہ ہوا ۔ بارہا فوجی گاڑیوں کو خودکش بمبار نشانہ بناتے رہے ۔فوجی کا وردی پہن کر باہر جانا خطرناک ہوگیا ۔
ہمارے ملک سے سرمایہ دار بھاگ گیا ۔ کوئی لاء اینڈ آرڈر یا ریاست نظر نہ آتی تھی ۔ صرف زرداری اور حواری اپنی عیاشی میں پڑے تھے ۔
ایسے وقت میں طاہرالقادری صاحب کا مردوعورت اور بچوں کو لے کر اسلام آباد کا رخ کرنا بہت جگرے کا کام تھا ۔ اور انہوں نے کیا ۔
شدید سردی میں جب وہ کھلے آسمان تلے اپنے لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے تب میں بھی گئی اور میری آنکھوں نے حیرت انگیز مناظر دیکھے ۔
پہلے تو مجھے بھی خوف تھا کہ طالبان نے جو اس وقت اسلام آباد کی پہاڑیوں پر قبضے کے دعوے بھی کر چکے تھے ۔ اگر وہ خودکش حملہ نہ بھی کرتے تو رحمان ملک کسی بھی وقت اسلام آباد کی پولیس اور فورسز کو استعمال کرکے قادری صاحب اور ان کے لوگوں کو یہاں سے نکالنے کی کوشش کریں گے ۔ اور ایسا ہوا بھی کہ فورس کے ذریعے انہیں واپس جانے کو کہا لیکن قادری صاحب کے لوگ خصوصا خواتین ڈٹ گئیں ۔
جب عوام لیڈر کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں تو کوئی طاقت انہیں گرا نہیں سکتی ۔ یہی ہم نے دیکھا ۔
عمران خان نے اسوقت ان کا ساتھ نہ دیا کیونکہ ان کی پارٹی نے اسی سسٹم کے تحت الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا جس کے متعلق طاہر القادری نے کہا کہ اس سسٹم کے تحت الیکشن لڑنے سے آپ کبھی جیت نہیں سکتے اور پھر وہی ہوا۔
وہ کہتے رہے کہ یہ سسٹم آزادی حق رائے دہی کے ذریعے ووٹ  کاسٹ کرنے کا نہیں بلکہ اس میں تو ووٹر کے ووٹ کو چند روپوں بلکہ ایک بریانی کی پلیٹ سے خریدلیا جاتا ہے ۔ ووٹر کو تحقیق اور اچھے برے کی تمیز کا حق بھی نہی اور نہ ہی یہ شعورتھا ۔
2013 میں پہلی بار 62/63 کی گونج سنی گئی اور پھر اس دھرنے کا اختتام حکومت زرداری کے اس وعدے پر ہوا کہ وہ ان کے مطالبات کے ساتھ اس شق کو نافذ العمل بنائیں گے اور آئیندہ الیکشن میں صادق اور امین لوگ ہی الیکشن لڑنے کے لائق ہوں گے ۔
قادری صاحب کے دھرنا ختم کردینے کے بعد حکومت اپنے کئے ہوئے وعدے سے پھر گئی اور قادری صاحب کی سادگی کا مذاق اڑانے لگے ۔میڈیا کی طرف سے مشکل سوالات کئے گئے کہ آپ نے زرداری پہ اعتماد کیوں کیا ؟
طاہرالقادری صاحب نے وہی کہا کہ اعتماد تو ریاست پاکستان کے نمائندوں پہ کیا تھا ۔ اب اگر ریاست جھوٹ بولے تو آپ کیا کر سکتے ہیں ؟ وہ اپنے کہے اور لکھے عہد نامے سے مکر جائے تو عام فرد کیا کرسکتا ہے ؟
بحرحال عمران خان نے الیکشن لڑا ۔ ہمارے سروے کے مطابق عمران خان کی جیت بڑے مارجن سے یقینی تھی لیکن پھر ایک رول اسٹیبلشمنٹ کا آگیا کہ دنیا میں حالات سازگار نہیں اور ہمیں کوئی دھیمے مزاج کا بندہ چاہیے جو ڈپلومیسی جانتا ہو ۔
عمران خان کا ڈرون مار گرا نے کا بیان عمران خان  کی ہار کی بنیادی وجہ بنا کہ ایسا شدت پسند حکمران پاکستان کو مزید مشکلات سے دوچار کر دے گا ۔
اس وقت ہماری پوزیشن بھی خاصی کمزور تھی اور غلط فیصلوں نے ہمیں دلدل میں اتار دیا تھا ۔
عمران خان کو اپنی جیت کا یقین تھا اسی لئے اس نے الیکشن کے نتائج قبول کرنے سے انکار کردیا اور اب دوسرا دھرنا تیار ہوا ۔۔۔۔

اس بار زرداری کی بجائے شریفوں کی حکومت تھی جس سے سامنا تھا ۔ رانا اور شہباز شریف جیسے عادی مجرموں کے شر سے ماڈل ٹاؤن میں 14 معصوم لوگوں کو شہید کردیا گیا محض اس گھمنڈ میں کہ ہم بادشاہ ہیں اور طاہرالقادری ہماری رعایا کو قانون پڑھاتا ہے جو ہمارے اقدار کے لئے خطرہ ہے تو سعد رفیق نے میڈیا پہ آکر طاہر القادری صاحب کو دھمکی دی کہ آپ وطن واپس آئیں آپ کا استقبال تیار ہے ۔
پھر وہ خونی داستان رقم ہوئی کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا دردناک سانحہ نہیں ہوا کبھی۔
اسلام آباد میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے تین ماہ سے زیادہ دھرنا دئیے رکھا اور عمران خان نے بار بار چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا جسے مذاق میں اڑا دیا گیا ۔
آج چار حلقوں سے شروع ہونے والی بات وزیراعظم عمران خان تک جا پہنچی ۔
عمران خان کے لئے مشکلات ہیں اور بہت زیادہ ہیں۔
گو کہ انسان تجربات سے سیکھتا ہے لیکن کبھی کبھی وقت نہیں بچتا اور ہمیں براہ راست فارمولا اپلائی کرنا پڑتا ہے۔ اس کا نقصان بھی اتنا ہی شدید ہوسکتا ہے جتنا بڑا فائدہ پیش نظر رکھ کر قدم اٹھایا گیا ۔
اب میرا آپ سے بہت اہم سوال ہے ۔۔
کیا آپ لوگ تیار ہیں ؟
مشکلات آئیں گی ۔۔ شاید پیٹ پہ پتھر بھی باندھنا پڑیں ۔۔ شاید مزدوری کی اجرت بھی کم ملے ۔۔
عمران خان کے پاس بہت ساری آپشنز نہیں۔۔۔
انہیں بہت سے انتہائی غیر معروف اقدام اٹھانے پڑ سکتے ہیں البتہ اچھے لوگوں کی ٹیم بنا لیں گے تو بہت سے نقصانات سے بچ جائیں گے لیکن فلحال تو وہ خود بہت گھبراہٹ کا شکار نظر آتے ہیں ۔
میری دعا وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ساتھ ہے ۔
میرا دل وطن عزیز کی دھڑکن کے ساتھ دھڑکتا ہے ۔ ۔
مجھے اگلے انیس ماہ مشکل درمشکل اور خوشحالی در خوشحالی کا مکسچر نظر آتے ہیں ۔
ٹھیک ایک سال دس ماہ بعد ہم وطن عزیز کو دنیا کا طاقت ور ترین ملک دیکھ رہے ہونگے ۔۔۔ اور 70 سال سے رکاسفر پھر شروع ہوگا۔
ان شاء اللہ
یہ میری نگاہ دیکھتی ہے ۔۔۔ اللہ سلامت رکھے اس سرزمین پاک کو اور آباد رکھے آپ سب کو۔

No comments:

Post a Comment