Monday, 3 September 2018

میرے ابا جی

چلیں آج آپ کو ابو سے ملواتی ہوں ۔
سیمی میری بہت اچھی دوست ہے اور بہت کم وقت میں اس کی محبت اور علم دوستی نے اس کا عادی سا کردیا ہے۔ بلاناغہ ہم روز ہی ملتے ہیں ۔ بہت ساری باتیں اور بہت سارے معاشرتی مسائل کے حل سے لے کر آخری سفر تک ہم سبھی کچھ زیر بحث لاتے ہیں ۔
میرے والدین کا گھر خاصا دور ہے ۔ لیکن وہ جب بھی کوئی کام کہیں تو میں رکتی نہیں ۔۔۔ رات ہو یا دن ۔ بس ان کا کام ضرور  کرتی ہوں ۔
اس روز بھی ایسا ہی ہوا ۔
ہفتہ میں صرف ایک چھٹی ہوتی ہے جس میں مجھے گھر کے سارے کام نمٹانے سمیت بازار سے سودا سلف بھی لانا ہوتا ہے ۔ ساتھ بچوں کی اپنی فرمائشیں اور ضروریات بھی پوری کرنے کیلئے یہی ایک دن ہوتا ہے ورنہ باقی دنوں میں وقت نہیں ملتا ۔
اس روز امی نے ایک کام میرے ذمہ لگا دیا ۔ صبح ان کے کاغذات اٹھا کر نکل گئی اور پھر واپس آکر سیمی کو ساتھ لیا اور ہم دونوں بازار چلے گئے ۔
شدید گرمی اور حبس سے برا حال ہوگیا اور واپس آتے آتے شام ہوگئی۔
ابو کو وہ کاغذات ضروری چاہیے تھے اور کچھ امی نے بھی سامان منگوایا تھا۔خیال تھا کہ کسی کے ہاتھ بھجوا دونگی۔
لیکن جب دو چار بار فون آیا تو لگا کہ کل تک ان کو بے چینی رہے گی بہتر ہے ہمت کرکے چلی ہی جاوں۔
یونہی سیمی سے کہہ دیا کہ ساتھ چلو ۔زیادہ اصرار نہ کیا کہ سارا دن گرمی میں بازار گھومتی رہی تو اب تھک گئی تھی ۔ پھر رات سر پہ آگئی تھی اور ابھی ہم دونوں نے کھانا بھی نہ پکایا تھا ۔
میں گھر جا کر دیکھتی ہوں ۔ نماز پڑھ کر گھنٹہ تک نکلیں اگر جانا ہوا تو۔۔۔
سیمی یہ کہہ کر چلی گئی ۔ میں کچھ دیر پنکھے کے نیچے بیٹھ کر طبیعت بحال کرتی رہی اور پھر کچن کا رخ کیا کہ بچوں کو کچھ پکا دوں کہ امی کی طرف آنے جانے میں بہت دیر ہوجائے گی ۔
پتا نہ چلا کب وقت گزر گیا۔فون کی بیل بجی اور میں نے کام چھوڑ کر فون ریسو کیا ۔
چلو جلدی سے آجاو میں گاڑی میں بیٹھی ہوں ۔فورا آجاو ۔۔
سیمی نے یکدم مجھے چلنے کو کہا تو مجھے سمجھ نہ آئی کہ اب کیا کروں ۔
کام وہیں چھوڑا۔ چادر اوڑھی ابو کے کاغذ ۔۔۔ امی کا سودا سامان اٹھایا اور بچوں کو بتا کر میں چند منٹوں میں اس کی کار میں جا بیٹھی جو پہلے ہی اسٹارٹ تھی ۔
راستہ تم بتاو ۔کیونکہ میں کبھی اس طرف نہیں گئی اور رات ڈرائیو کرتے وقت مجھے یوں بھی سمجھ نہیں آتی۔
سیمی نے گئیر بدلتے بدلتے مجھے تاکید کردی۔
ہم باتیں کرتے رہے کہ انسان کی زندگی کا مشاہدہ کریں تو ہاتھ میں کچھ نہیں ۔
اور اللہ کے فضل کو دیکھیں تو ایمان تازہ ہوجاتا ہے ۔
تو ہونا تو یہی چاہیے کہ اپنی سی کوشش کرکے اس کے احکامات کی پیروی کریں اور اجر اس کے سپرد کر دیں کہ مالک جو تیری رضا وہی ہماری چاہت !!
سیمی کی ابو سے پہلی ملاقات تھی ۔
ابو نے اپنی ساری زندگی بہت ایکٹو گزاری ہے ۔ چند سال پہلے تک باجماعت نماز اور وہ بھی پہلی صف میں پہنچنے والے ، مسجد کمیٹی کے ممبر اور محلے میں سب سے معتبر جانے جاتے۔
دل کی تکلیف نے ابو کی صحت بہت خراب کردی اور کچھ برسوں سے گھر سے باہر جانا ممکن ہی نہ رہا اسلئے اب اپنے کمرے میں ہی رہتے ہیں ۔
سیمی سے ملنے کے لئے اپنے کمرے سے باہر آگئے اور پھر سیمی کے ابو کی فوجی زندگی سے متعلق دلچسپ سوالات نے ایک ماحول بنا دیا ۔
جنگوں کا تذکرہ ہوا اور ابو نے بتایا کہ 65 کی جنگ میں ہم سیالکوٹ میں تھے اور بہت بے جگری سے لڑے ۔
پاکستانی فوج کے پاس اسلحہ اور دیگر جنگی سازوسامان بہت کم تھا لیکن بہادر فوج اور نہتے عوام کا جذبہ دیدنی تھا۔
ٹرکوں کو رنگ و روغن اس انداز سے کیا کہ ان پر مشین گن لگا کر ترپال ڈال دئیے تو دشمن کو لگا جیسے ٹینک ان کی طرف بڑھ رہے ہوں اور ان کے حوصلے جواب دے گئے ۔
ابو کہنے لگے کہ میں وہ فوجی ہوں جو اس انتظار میں کبھی نہیں رہا کہ کب باری آئے گی تو کام کرونگا بلکہ ہمیشہ سب سے پہلے آگے بڑھ کر میں ہی کام کرتا رہا ۔
سیمی مجھے دیکھ کر مسکرائی۔
جی ہاں ۔۔۔  میرے ابو ۔۔۔ میں نے آہستہ سے سرگوشی کی ۔ تو وہ بھی سر ہلانے لگی کہ ہاں سمجھ آتی ہے کہ تمہارے اندر بھی ایک فرنٹ لائن فوجی کا لہو دوڑتا ہے جو ہر محاذ پر سب سے آگے کھڑی نظر آتی ہو ۔
باتوں باتوں میں ایک بات پر ہم سب بہت ہنسے ۔جب ابو نے بتایا کہ جنگ میں ہماری کمیونیکیشن کچھ عرصہ معطل رہی اور ہم لڑتے لڑتے بہت آگے نکل گئے۔
جب رابطہ بحال ہوا تو ہمیں بتایا گیا کہ واپس آجاو بھئی کدھر نکل گئے ہو ۔۔۔ (اور گھس کے مارنے والا جملہ یاد آگیا)
کیونکہ ہم اس وقت بھارت کی سرزمین میں داخل ہو چکے تھے اور ان کی فوج کو بہت پیچھے دھکیل دیا تھا۔
سیمی کے چہرے پہ جوش و خروش کے آثار نظر آرہے تھے اور میں نے ایک بار پھر آہستہ سے کہا ۔۔۔
میرے ابا جی ۔۔۔
وہ پھر مجھے دیکھ کر سر ہلانے لگی کہ ہاں پتا چلتا ہے تمہارے ہی ابا جی یہ کر سکتے تھے ۔
ابو نے بتایا کہ ہمارے آرمڈ برگیڈ کے ساتھ انفنٹری با پیادہ لڑ رہی تھی جب ہم نے دشمن کے دو جہاز مار گرائے۔
کرنل اولیور آئزک کا ذکر کرتے ہوئے ابو نے بتایا کہ وہ بہت محب وطن فوجی تھے اور اس وقت ہم ان کی کمانڈ میں تھے ۔
مجھے خیال آیا کہ کیسا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ فوج میں عیسائی ،سکھ، قادیانی یا کسی بھی غیر مسلم کو بھرتی نہیں کیا جاتا جبکہ ہماری تاریخ اٹھائیں تو بے تحاشا غیر مسلموں کے نام ایسے ہیں کہ جن پہ آج بھی ہمیں فخر ہے کہ وہ صرف پاکستانی فوجی بن کر فرض نبھاتے رہے ناں کہ اس بحث میں پڑتے کہ اقلیت میں ہیں۔
سیمی کو کھانے کیلئے کئی بار کہا جاچکا تھاکہ اب چھوڑ دو ابو کی جان اور آجاو کھانا کھا لو ۔
لیکن وہ تو ایسی انہماک سے ابو کی باتیں سن رہی تھی کہ جیسے ہماری بات سنی ہی نہ ہو۔
آپ سمجھ رہی ہیں ناں؟
میں کھانا ٹیبل پہ لگا کر واپس آئی تو ابو سیمی کو کچھ بتا رہے تھے ۔۔ وہ سر ہلا ہلا کر تائید کررہی تھی ۔
مجھے فوج میں بھی میڈل اور عزت ملی اور بعد میں ائیرلائن کی جاب میں بھی میرے افسران میرا احترام کرتے رہے ۔
ابو نے چند گھونٹ پانی پیا اور پھر بولے ۔
رات کی شفٹ پر جہازوں کی آمدورفت سے لے کر گاڑیوں کے فیول تک ہر شے میں خود چیک کرتا تھا جب باقی سب سو جاتے تھے ۔
کنٹرول ٹاور میں بیٹھے افسران میری بہت عزت کرتے تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ کیانی صاحب آپ تو انسان نہیں لگتے ۔ آپ رات بھر گراونڈ کا چکر لگاتے رہتے  ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ یہ بندہ تھکتا نہیں؟
ابو کہتے ہیں کہ میں ہنستا تھا کہ جب میں ڈیوٹی پہ ہوتا یوں تو مجھے نیند نہیں آتی ۔۔ بھوک نہیں لگتی۔۔ مجھے صرف فرض کی فکر ہوتی ہے ۔
سیمی نے پھر میری طرف دیکھا اور میں نے زیر لب گنگنایا ۔۔۔ میرے ابا جی ۔۔۔
رات آوور ٹائم کرکے میں جب گھر آیا کرتا تھا تبھی کھانا کھاتا تھا ۔
بہت سارے لوگ تو آفس کا کھانا بھی گھر لے جاتے تھے لیکن مجھے اللہ نے اپنے بچوں کو حرام مال کھلانے  اور چوری جیسے کاموں سے محفوظ رکھا ۔
اور دیکھو بیٹا ۔۔۔ یہ بھی اسی ذات کا کمال ہے کہ جہاں ہر شے میرے اختیار میں تھی ۔ میں چاہتا تو بہت کچھ بنا سکتا تھا ۔ ہر اہم لاکر کی چابی میرے پاس تھی ۔ ہر کسی کی امانت میرے پاس ہوتی ۔ سارے افسران تمام تر رازداری کے لئے مجھے منتخب کرتے ۔
میری ہر بات پر اندھا یقین رکھتے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس زمانے ہیرا پھیری کرنا اسلئے کچھ مشکل نہ تھا کہ ائیرلائن بہت منافع کما رہی تھی اور ہر کوئی کچھ نہ کچھ مال ضرور ناجائز طریقہ سے  بنا رہا تھا کہ یہ ہمارا حق ہے ۔
ان سب باتوں کے باوجود کبھی میرے دل میں یہ گمان تک پیدا نہ ہوا کہ میں بھی تو محنت کرتا ہوں ۔ میری تنخواہ کم ہے ۔ میرا بھی ایئر لائن کی کمائی میں حصہ بنتا ہے جیسے دیگر کا بنتا ہے لیکن اس ذات پاک کی مہربانی ہے کہ اس نے ایسے خیال سے باز رکھا۔
بس جو اللہ نے دیا وہ بھی اس کا احسان ہے ۔
ابو نے ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا ۔
آپ سمجھ رہی ہو نا؟ ابو نے سیمی کو بچوں کی طرح سمجھاتے ہوئے کہا ۔( بعد میں سیمی نے مجھے کہا کہ میرا اور ابو کا تکیہ کلام بھی ایک ہی ہے ۔۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا؟)
ہماری زندگی محنت اور مشقت کرتے گزری ہے ۔ اپنے افسران سے بھی تعریفی اسناد لیں اور فوج سے بھی عزت کمائی ۔
آج اللہ کا شکر ہے کہ اولاد ہماری فرمانبردار ہے۔
بیٹوں کو آج اگر تھپڑ بھی مار دیں تو آگے سے اف نہیں کریں گے ۔ یہ حلال کمائی کی برکت ہے ۔
سیمی مسکرا رہی تھی اور بہت محبت سے ابو کی طرف ٹکٹی باندھے دیکھ رہی تھی ۔
آپ بھی یہ بات سمجھ لیں کہ حلال کمائی میں بہت خیر ہے بہت برکت ہے ۔۔ جن لوگوں نے اپنے بچوں کی خاطر حرام کمایا ان لوگوں کو عمر کے اس آخری حصے میں در بدر ہوتے دیکھا۔ عبرت کا نشان بن گئے ہیں ۔ نہ ان کے دلوں کو سکون ہے نا آخرت میں کوئی امید ہے ان کو ۔
ایک لمبی آہ بھری ابو نے ۔۔۔
لالچ اندھا کردیتا ہے انسان کو ۔ بہت دکھ ہوتا ان کو دیکھ کر ۔
ہمارے تو والد صاحب نے بھی بہت با کردار زندگی گزاری کہ آج بھی لوگ ان کا نام صداحترام سے لیتے ہیں۔
یہاں سے جنگ عظیم دوئم میں داداجی کا حصہ اور پاکستان بننے کی کہانی کا آغاز ہوگیا۔
سیمی کو بڑی مشکل سے ابو کے پاس سے اٹھایا ۔
جلدی سے کھانا کھاو تو گھر چلیں ۔رات گہری ہوگئی بچے انتظار کرتےہوں گے ۔
میں نے سیمی کو ٹیبل پہ بٹھا کر پلیٹ اس کے سامنے رکھی ۔
ابو کو جاکر کاغذات سے متعلق کچھ سمجھایا اور خود بھی سیمی کے ساتھ ہی ڈنر کرکے واپسی کی تیاری کی ۔
امی اور بھابھی نے چلتے وقت سیمی اور مجھے کھانا بھی تھما دیا کہ اب جاکر بنانے کا وقت نہیں ۔ جاو بچوں کو جاکر کھانا کھلاو۔
وہ کچھ جھجکی لیکن میں نے کھانا اٹھا کر کار میں رکھ دیا ۔ مجھے پتا تھا کہ امی اور بھابھی اب ایسے جانے بھی نہیں دینگے ۔ یہ تو اس گھر رواج تھا ۔ مہمانداری اور تواضع تو خاصا ہےامی کے گھر کا۔
سیمی پھر پلٹی کہ ابو سے مل آوں ۔ اس تو دل ابھی مزید باتیں سننے کا تھا لیکن وقت کی قلت اور ابو کی صحت مزید اجازت نہیں دیتی تھی ۔
آج بھی پاکستان سے محبت کے تذکرے پر وہ جوانوں کی طرح  جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور پھر انرجی ڈاون ہو جاتی ہے ۔
ابو نے سیمی کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور ڈھیر ساری دعائیں دیں ۔
یہی ہم آپ کے لئے اور آپ ہمارے لئے کر سکتے ہیں ۔ بس آپ ہمارے لئے دعا کرتے رہیں اور ہم آپ کے لئے دعا کرتے ہیں ۔
ابو اب تھک گئے تھے لیکن شفقت اور محبت ان کے چہرے سے عیاں تھی۔
بھئی بچوں کے لئے بھی کھانا پیک کردو ۔۔۔ ابو نے امی کو حکم دیا تو بھابھی مسکرا دی کہ ۔۔ جی دے دیا ۔
سیمی ہنسنے لگی ۔
اللہ کامیاب کرے بچوں کو اور امان میں رکھے آپ سب کو ۔
ابو ایک بار پھر دعائیں دینے لگے ۔
کچھ ہی دیر میں ہم دونوں واپسی کیلئے روانہ ہو چکے تھے ۔
کار میں بیٹھتے ہی سیمی نے مجھے قابل تحسین نگاہوں سے دیکھا تو میں نے مسکرا کر کہا ۔۔ 
یہ ہیں ۔۔۔ میرے ابا جی !!!

No comments:

Post a Comment