Friday, 5 October 2018

ڈاڈھی

ڈاڈھی۔۔۔ بس بہت ڈاڈھی تھی۔۔۔
اب وہ منت ترلا کرنے پہ اور میں بے نیاز۔۔۔
اس پہ انت یہ کہ مزاج غضب ناک تھا ۔ ذرا سی غلطی تو اب کوئی کرے ۔۔۔ اسی طرح گردن سے پکڑ لیتی تھی جیسے سانپ کو پکڑا جاتا تھا ۔
یہ خود پہ محنت کرنے کا نتیجہ نکلا ۔ بجائے ارد گرد کہاوتیں بانٹتی ۔۔ میں نے خود کو ہی تراش خراش کرنے میں لگا لیا تھا ۔
انہی دنوں ژان پال سارتر(فرینچ وجودیت پسند فلاسفر) سے واقفیت ہوئی ۔ انسان کی ہیت سے لے کر اس کی آزادانہ فکر تک اس کا تجزیہ پڑھا ۔
کچھ لوگ گھبرا گئے کہ کچی عمر ہے یہ کیا پڑھ بیٹھی ۔۔ ایمان متزلزل ہوجاتا ہے ۔۔۔
پھر لگے کرنے انٹرویو ۔۔ اچھا خدا کو تو مانتی ہو۔۔۔ نا؟ تمہیں پتا ہے نا کہ بن دیکھے ہم ایمان رکھتے ہیں ؟ یہ سب کن فیکون سے ممکن ہوا۔۔ خود سے کچھ بھی وجود میں نہ آیا ۔۔۔
الغرض مجھے مسلمان بنانے کیلئے پوری تیاری کر لی گئی۔۔۔ لیکن انہیں اسوقت مایوسی ہوئی جب میں نے اپنا تجزیہ بیان کرنا شروع کیا ۔
یہ فلاسفر کنفیوز ہیں ۔
یہ اپنی عقل سے علم کی سعی میں مصروف ہیں جبکہ کائنات الہام ہے خدا کا ۔۔۔
قدرت کے کارخانے کو بنا سمجھے بنا پرکھے محض اپنے وجود پر انگلی رکھ کر کہہ دینا کہ میں ایک گیلی مٹی ہوں جو کیڑے کی طرح پروان چڑھی شکل اختیار کی اور "میں "بنا ۔۔۔
پہلی بار میرے اردگرد موجود دانشور چونکے ۔۔ ارے یہ تو کچھ اور ہی نکل آئی ۔۔ کوئی بوڑھی پاپی روح کا اثر ہے اس کے ذہن پر ۔۔
بس قسمت اس وقت میری مٹھی میں تھی اور مزاج آسمان پر ۔۔ لیکن اسے تکبر نہیں کہا جاسکتا تھا کہ درد کے رشتے میں نے کبھی ٹھکرائے نہیں تھے  بلکہ دن بدن ان کی قدر میں اضافہ ہی ہوا۔ ۔
میرا مسئلہ صرف مقابل تھا !!
آج بھی اگر کوئی مد مقابل آجائے تو میں بھی ہتھیار تیز کرنے لگتی ہوں ۔۔ یہی مزاج ہے ۔۔۔ کسی کو خود سے چھیڑا نہیں پر جو چھیڑ دے اسے چھوڑنا نہیں ۔۔۔ ڈاڈھی!!
مقابل کون ہوتا ہے ؟
یہ بہت اہم سوال۔ہے ۔۔۔   ہم ہر کسی کو مقابلے پر نہیں لاتے ۔ اس کے لئے ایک معیار ہوتا ہے ۔
آپ کا مقابلہ آپ سے کمتر یا کمزور سے نہی ہوسکتا ۔۔
کمتر سے مراد بہت ساری باتوں میں جو آپ کے معیار ہوتے ہیں ان سے ہر لحاظ میں دوسرا پیچھے ہو وہ سوچ سمجھ فکر معاملات معیارات علم طاقت اور  حیثیت میں آپ سے فاصلے پر ہو ۔
اس میں ہتک کا پہلو نہیں ۔ بس یہ درجے قدرت نے بنائے ۔ کسی کو رزق میں دولت تو کسی کو علم عطا کیا ۔۔
کسی کو حسن تو کسی کو تقوی عطا کیا۔۔
یہ تمام اقسام رزق کی تقسیم کی ہیں ۔ ذرا غور وفکر کریں گے تو سمجھ جائیں گے ۔
تو بات تھی کہ مد مقابل کون ہوسکتا ہے؟
اب یہاں بہت سی کہانیاں ہیں ۔۔ سننا چاہیں گے ؟
کس نے کہاں چھیڑا اور میں مقابلے پہ میدان میں اترآئی؟ کون ساتھ چلنے کو بیتاب تھا اور پھر ہمت ہار گیا ۔پیچھے ہٹ جانے کے بعد میرے نشانے پہ آگیا۔۔
ایک ایک باب داستان بنا ۔۔ بہت کچھ سیکھا اور بہت سے سبق سکھائے۔۔ اب کچھ مشکل نہیں لگتا ۔۔ کسی کو اٹھا کر پٹخ دوں ۔۔ کچھ بڑی بات نہیں ۔۔ بس اصول کی بات ہے ۔۔ خواہ مخواہ ہر کسی سے الجھنا پسند نہیں جب تک کہ معقول وجہ نہ بن جائے ۔
تو بات تھی مقابل کی ۔۔۔
تمام عمر لوگوں کی آسانی کے لئے کوشاں رہی اور جہاں دیکھا کوئی کسی کمزور کیلئےمشکل بنارہا ہے تو ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا ۔۔ حتی کہ ظالم کو خاک چٹوا دی ۔۔
دوستوں نے کہا کہ خود کے لئے اتنا لڑی ہوتی تو آج کسی جگہ سکون سے بیٹھی زندگی کے مزے لیتی ۔
اب کیا سمجھاوں ۔۔
کچھ لوگوں کو جنت سے نکالا ہی اسی لئے گیا تھا کہ دوسروں کی جہنم کو کم کرو ۔۔ اب جو ڈیوٹی لگ گئی اس پر حکم بجا لانا ہی بندگی ہے ۔
پرانے دوست تو اب جانتے ہیں اسلئے تکرار نہی ۔
کچھ دوست میری طبیعت سے واقف ہیں اسلئے اپنے تئیں میرے لئے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
میں اپنے دوستوں کی قدردان ہوں ۔ سچ تو یہ ہے کہ فی زمانہ خلوص ناپید ہوگیا لیکن مالک کا کرم ہے کہ مجھے دوستوں کی محبت اور خلوص ملتا رہا ۔
بعض دوست نئے ہیں لیکن بہت تیزی سے اپنی جگہ بنا گئے ۔
یہی سرمایہ ہے۔۔۔ اس میں ایک بہت معروف کہاوت پوشیدہ ۔ہے ۔۔بھلا کیا ؟
کر بھلا سو ہو بھلا۔۔۔ 
جی ہاں ۔۔ زندگی میں جو کریں گے وہی بھریں گے ۔کوئی بڑی سائنس نہیں بس دوسروں کو  جینے دیں اور خود بھی جئیں۔
مجھے یاد ہے ۔۔
ہماری ٹیچر ریحانہ بہت فلاحی کام کرواتی تھیں۔ ان کے ساتھ ہم اکثر سکول سے ہی کچی بستیوں اور محنت کشوں کی امداد کے لئے جایا کرتے تھے۔
پھر ہمارے محلے میں میرا ایک بہت اچھا بھائیوں جیسادوست تھا ۔ وہ بھی آئے روز چندہ اکٹھا کرتا نظر آتا تھا ۔۔ جیسے ایک فیکٹری مزدور کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو آپریشن کیلیے رقم اکٹھی کرنی تھی ۔
اس نے مجھے ہی کہا اور ہم نے مل کر اس وقت ڈھیر ساری رقم کا بندوبست کیا۔ گھر گھر جاکر بھی مانگے اور اپنوں کی جیبیں بھی خالی کروائیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم نے 1992 کا ورلڈ کپ جیتا تھا ۔ ہم سکول میں ہی تھے اور ہمارے سامنے کچھ فاصلے پر وہ ہوٹل تھا جہاں عمران خان اپنی ساری ٹیم کی ساتھ ٹھہرا تھا ۔ ہم بھی گئے تھے ۔ الگ الگ ملاقات تو نہ ہوئی لیکن گروپ میں سب نے دیکھا ۔کرسٹل کی بنی ٹرافی ایسے لشکارے مارتی تھی کہ آج بھی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں ۔
واہ کیا دن تھے ۔ جدھر جی چاہتا بنا خوف وخطر چل پڑتے ۔
حالات اچھے نہیں لیکن ویسے بھی نہیں رہے کہ جنہوں نے زندگیوں کو اجیرن کردیا تھا ۔
وقت بدلنے کا موسم آرہا ہے لیکن کیا ہم بدلاو کے لئے تیار ہیں ؟
یاد رکھیں ۔۔
یہ بہت ہی مختصر سی مدت ہے اگر ہم تیار نہیں تو ہمیں پتا بھی نہیں چلنا کہ کس وقت ہماری تقدیر بدلنے کا وقت ہوا اور کب گزر گیا ۔۔
70 سال بعد 1947 والی ونڈو کھل رہی ہے ۔ ایک بار پھر قوم بننے کا عمل شروع ہے ۔
اب اگر ہم تیار نہیں تو پھر اس ونڈو کے بند ہونے کے بعد پتا نہیں 70 سال مزید انتظار کرنا ہوگا یا 100 سال؟
ہمیں وہ جذبہ درکار ہے جس نے پاکستان بنایا ۔  یہ کوئی مذاق نہیں ۔ یہ زندگی اور موت کی بات ہے ۔ سمجھدار سمجھ جائینگے احمق بغلیں بجاتے رہینگے ۔
نسیم بیگ مرحوم فرما تے تھے ۔ بچے ۔۔ تم پاکستان کی محافظ بنوگی تم سے بہت سے کام لینے ہیں ہم نے ۔۔ تمہیں سیلیکٹ کرلیا گیا ہے اس وطن عزیز کے مسقبل کے لئے ۔
پھر انکل نسیم بیگ فوت ہوگئے ۔
میں نے اپنا راستہ خود بنا لیا ۔ خود ساختہ ۔۔ خدائی فوجدار !
بس زندگی کے نشیب و فراز میں نے تنہا ہی کاٹے ۔
کٹھن راستوں پہ کوئی شجر سایہ دار ملا تو کچھ سستا لیا ۔۔ کہیں کوئی ساتھ چلا تو کچھ دیر چلا لیا ۔۔ لیکن پھر راہیں جدا ۔۔
میرے مقصد کی طرف سفر کی تکلیف سے لوگ گھبراجاتے ہیں ۔ رکاوٹیں اور مشکلات دیکھ کر پلٹ جاتے ہیں ۔
۔۔ مجھے آرام اور سکون کا لالچ دیا گیا کہ پلٹ جاو ۔۔ زندگی کو ویسے ہی جیو جیسے دوسرے جیتے ہیں ۔ لیکن میں نے پلٹ کر نہ دیکھا ۔ مجھے آگے ہی جانا تھا سو چلتی رہی ۔
کچھ عرصہ قبل کچھ ایسا ہوا کہ میرا سفر سست رفتار ہوگیا۔ وہ ایک بادل تھا جس نے مجھے گھیر لیا ۔۔ کچھ سجھائی۔نہ دیا کچھ دکھائی نہ دیا ۔۔ بہت دیر لڑی اور جب لگا کہ بادل چھٹ گیا تو دیکھا یہ وہ جگہ نہیں جہاں میں پہلے کھڑی تھی ۔۔
ایسا پہلی بار ہوا ۔۔ لیکن سفر بڑھ گیا ۔۔ منزل چند قدم تھی۔
ایک بار پھر کسی کی آسانی کے لئے خود کو نظرانداز کردیا ۔۔ بلکہ ابکہ تو اپنے ہی اصول توڑ دئیے۔۔۔
کیا کروں ۔۔ طبیعت ہی ایسی ہے ۔۔ اس نے کہا میں تکلیف میں ہوں مجھے نجات چاہیے ۔۔ اسکی تکلیف اور اضطراب دیکھ کر میں بھول گئی کہ سالوں سال جن اصولوں کی پرورش کی ان کی قربانی مانگی جارہی ہے ۔۔
اللہ نے دل ہی عجیب دے دیا۔۔ ویسے جتنے جھٹکے لگے ہیں اس دل۔کو ۔۔ ابھی تک چل رہا ہے یہ بھی معمہ ہی ہے ۔
تو بات تھی کہ ڈاڈھی کو کیا ہوا کہ ہتھیار لپیٹ کر رکھ دئیے ؟
بچپن میں ہم سہیلیاں اپنی ڈائری ایکدوسرے کو بھیج کر مختلف سوال لکھا کرتے تھے کہ آپ کو رنگ کونسا پسند یے ؟
غصہ۔کس بات پر آتا ہے؟ کھانا کیا پسند ہے ؟ وغیرہ وغیرہ
ایک سوال تھا ۔۔ آپ کی کمزوریاں کیا ہیں  ؟
میں جواب لکھتی تھی ۔۔ مجھے کمزوریاں پالنے کا شوق نہیں ۔
سوال تھا ۔۔ آپ کو کونسا کام ناممکن لگتا ہے ؟
میرا جواب ہوتا۔۔ ناممکن کچھ بھی نہی ۔۔ سب ممکن ہے ۔
سوال۔تھا ۔۔۔ آپ نے زندگی میں کہاں کہاں سرینڈر کیا؟
جواب تھا ۔۔ مجھے سرینڈر کرنا نہیں آتا ۔
سوال تھا ۔۔ اگر آپ ٹریپ ہوجائیں اور کوئی راستہ نہ ہو تو کیا کرینگی ؟ کس کو پکاریں گی ؟
جواب۔۔۔ اللہ نے جو دماغ دیا اسے استعمال کروں گی ۔ مجھے راستہ نکالنا آتا ہے میں نکل آونگی ۔
میرا مددگار صرف میرا رب ہے اسے پکاروں گی ۔
ایک دلچسپ سوال تھا ۔۔
کبھی آپ مشکل میں ہوں اور آپ کے دوست دور کھڑے تماشہ دیکھیں تو آپ کا کیا جی چاہیے گا ۔۔
جواب میں لکھا۔۔۔ میں دوست کو معاف کردونگی ۔۔ لیکن یہ نہی پتا کہ کب تک ۔۔ شاید پھر کبھی کسی۔موقع پر سارے۔پرانے حساب چکتا دوں۔
مزے کی۔بات کہ میری سہیلیاں جب اپنی ڈائیریاں لے کر بیٹھتیں تو سب سے زیادہ بورننگ اور نہ سمجھ میں آنے والا تعارف میرا ہوتا ۔
کوسنے دیتیں اور آئیندہ مجھے ڈائری نہ دینے کا تحیہ کرلیتیں۔
کوئی استاد پورے یقین سے نہی کہہ سکتا تھا کہ یہ ہماری شاگرد ہے ۔
مس شاہین ڈاڈھی ترین استاد تھیں ۔۔
انہیں آتا دیکھ کر لڑکیاں راستہ بدل لیا کرتی تھیں ۔ لیکن میری گھنٹوں گھنٹوں ان سے گراونڈ میں کھڑے گفتگو کرنا ۔۔ سب کیلئے حیران کن تھا۔
پھر ان کا رکارڈ تھا کہ وہ اپنا پیریڈ کبھی نہیں چھوڑتی تھیں ۔۔۔ میرے لئے دو بار انہوں نے ایسا کیا ۔۔ حالانکہ میں نہیں چاہتی تھی لیکن وہ مجھے لے کر ایک طرف چل پڑیں۔
اس روز بھی میرا جھگڑا ہوا تھا ۔
ساتھ والے سکول کے تین لڑکوں کو ہسپتال بھجوا کر آئی تھی ۔ پتا نہیں کیوں ہاتھ نہ رکا اور مار مار کر ان غریبوں کا حشر کردیا۔
قصور وہی تھا۔ کیوں لڑکیوں کو چھیڑا ؟ کیوں جملے کسے ؟ کیوں راستہ روکا؟
اور وہ شہزادیاں بھی پرنسپل کے پاس جس نے کی بجائے میرے پاس آگئیں روتی دھوتی۔
بس مس شاہین نے اسی جرم کی پاداش میں پوری کلاس کو ڈیسکوں نے پہ کان پکڑوا کر کھڑا کیا اور مجھے لے کر باہر آگئیں ۔
کیانی ۔۔۔ کیا مسئلہ ہے تمہارا؟
کب تک گارڈ مدر بنی رہونگی؟ کیوں خود کو مصیبت میں ڈالتی ہو ان کے پیچھے ؟
جن لڑکوں کو مارا ہے ان میں ایک ڈی ایس پی کا لڑکا ہے ۔
شکر کرو اس کی بہن نے تمہارے حق میں گواہی دی کہ کیانی غلط نہیں کرتی ۔ میرے بھائی نے کچھ کیا ہوگا تو مار کھائی ہے ۔ اسکی ماں نے ہمارے سامنے عالیہ کو جھاڑا کہ بھائی کی بجائے دوست کا ساتھ دے رہی ہو ۔
تمہاری وجہ سے اسے بھی سننا پڑیں ۔۔
آخر کب تک ؟
کیانی کب تک چلے گا یہ سب ؟
تمہیں پتا ہے میں تمہاری ذہانت کی وجہ سے تمہیں پسند کرتی ہوں ۔ ایک بھی لڑکی اتنی جلدی ٹیسٹ تیار نہیں کرتی جسطرح تم کرلیتی ہو۔۔
کبھی پڑھائی میں تم نے مایوس نہیں کیا ۔ پہلی بار مجھے لگا کہ تم عربی زبان کا حق ادا کرسکتی ہو ۔۔ لیکن تم تو سنجیدہ ہی نہیں !!
ہر روز اسٹاف روم میں تم موضوع بنی ہوئی ہوتی ہو ۔۔
کوئی بھی یہ سمجھ نہیں پاتا کہ اتنی انرجی کہاں سے آتی ہے اس لڑکی میں ؟
اور کیوں تم نے سپورٹس کی ذمہ داری لے لی ؟ جو انسٹکٹر تنخواہیں لیتے ہیں یہ کام بھی انہی کا ہے کہ اپنی جگہ کوئی دوسرا بندہ لگا کر جائیں ۔۔۔
تم نے اور کم کام لے رکھیں ہیں سر جو اب یہ بھی پکڑ لیا ؟ دو مہینے بھی نہیں رہ گئے سالانہ امتحان میں ۔۔ کیسے کروگی مینج ؟
کیوں نہیں سمجھتی کہ یہ سب تمہارے کرنے کا نہیں !!
مس شاہین نان اسٹاپ بولتی رہیں ۔۔ میں خاموشی سے سر جھکائے سنتی رہی ۔۔ پیریڈ اوور ہونے کی بیل بجی ۔۔
آج میں تمہارے ساتھ گھر جاونگی ۔۔
تمہاری امی سے ملنا ہے۔
اس ملک میں تمہارے جیسے بچوں کی صلاحیت کے مطابق کوئی ادارہ نہیں ۔ ہمیں دہشتگرد نہیں بنانے !!
جی ہاں ۔۔۔تو  پتا چلا۔۔۔
دہشتگرد کیسے بنتے ہیں؟

No comments:

Post a Comment