*جنگ موتہ *
جنگ موتہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود شامل نہ تھے اور یہ جنگ کیوں کرنا پڑی ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ فرمائی۔
8 سال جب قریش اور مسلمانوں کے مابین کوئی جنگ نہ ہوئی تو اسلام کے پیغام کو پھیلانے کیلئے مختلف علاقوں میں سفیر روانہ فرمائے ۔
اردن کے رومی اور عرب مسیحی قبائل نے ان سفیروں کو سفارتی آداب کے خلاف قتل کردیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبائل کی سرکوبی کیلئے 3000 مسلمانوں کا لشکر زید بن حارثہ رضی اللہ ۔۔ جعفر طیار رضی اللہ اور عبداللہ بن رواحہ کی قیادت میں( یکے بعد دیگرے بصورت شہادت )بھیجا ۔۔
دوسری طرف دو لاکھ ماہر جنگجووں کی فوج تھی ۔
تینوں امیران افواج کی شہادت کے بعد فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عین مطابق فوج نے اپنا سربراہ منتخب کیا اور اس بار خالد بن ولید رضی اللہ کو فوج کا سربراہ چنا گیا۔
خالد بن ولید رضی اللہ اس وقت نئے نئے حلقہ اسلام میں داخل ہوئے تھے لیکن کمال جنگی مہارت تھی ۔ سبحان اللہ
رات کا وقت ہوچکا تھا اور امیر فوج جان چکے تھے کہ مد مقابل فوج ناصرف عددی برتری رکھتی ہے بلکہ مہارت میں بھی ان سے آگے ہے ۔
چنانچہ یہاں انہوں نے ایک اسٹریٹجک پلین بنایا اور رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کثیر تعداد میں فوج کو مختلف پہاڑوں کے پیچھے چھپا دیا اور حکم دیا کی جب صبح جنگ کا آغاز ہو تو خوب گھوڑے دوڑاتے ہوئے غبار اڑاتے ہوئے ہمارے لشکر میں پیچھے سے اس طرح شامل ہوتے جانا کہ دشمن کو لگے جیسے مدینہ منورہ سے مزید فوج امداد کو آ پہنچی ۔
اللہ کی مدد سے جب صبح رومییوں اور عرب مسیحی قبائل نے مزید فوج آتی دیکھی تو انہوں نے اپنی فوجیں پیچھے ہٹا لیں ۔
جنگ بندی ہوگئی ۔
خالد بن ولید رضی اللہ مسلمانوں کو بچا کر واپس لے گئے اور یہ جنگ بظاہر تو کسی کی جیت نہ ہوئی البتہ مسلمانوں کے لئے اس فائدہ یہ ہوا کہ جو دہشت روم کی پہلے قائم تھی وہ باقی نہ رہی ۔
اس سے پہلے اتنی دور اور اتنی مختصر فوج کے ساتھ جنگ لڑنے کا تصور بھی نہ تھا۔
مسلمانوں کا جذبہ شہادت اور دلیرانہ انداز اس علاقے پہ اثر انداز ہوا۔
یہ جنگ 8 ھجری میں پیش آئی ۔
اسی جنگ کے واضح برتری کے نتائج نہ نکلنے کے باعث قریش مکہ کو موقع مل گیا کہ وہ صلح حدیبیہ سے رو گردانی کی جرات کرسکے ۔
بنی خزاعہ مسلمانوں کا اتحادی قبیلہ تھا۔
معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قریش مکہ نے بنو دئل کا ساتھ دیتے ہوئے بنی خزاعہ کے لوگوں کو قتل کردیا ۔
بات چھپی نہ رہی کہ صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خلاف ورزی کو برداشت نہ فرمایا اور 10 ہزار مسلمانوں کا عظیم الشان لشکر تشکیل فرمایا ۔
یاد رہے ۔۔۔۔
مسلمانوں کو ہجرت کرکے مدینہ آباد ہونا پڑا تھا اور بظاہر صلح حدیبیہ کا معاہدہ جو قریش مکہ کے حق میں۔نظر آتا ہے ۔۔کرنا پڑا تھا۔
اسلئے کہ اس وقت کفار مکہ بہت طاقتور تھے اور مسلمان تعداد میں بھی کم تھے اور مالی طور پر بھی کمزور تھے ۔
یہاں میری دلچسپی وہ اسٹریٹجک پلینز ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگوں میں مرتب فرماتے ۔۔۔
اس سے قبل ایسے شاندار جنگی پلینز نہیں بنتے تھے جن میں جنگ ہتھیاروں سے کم اور ذہنی استعداد کے استعمال سے بنا خون بہائے بھی جیتی جاسکتی تھی ۔
جی ہاں۔۔۔ یہی وہ خوبی ہے اسلام کی جس نے انسانی جان کی قدر وقیمت کا معیار متعین کیا اور اصول رائج کیا کہ ایک بے گناہ انسان کا بنا عذر قتل ساری انسانیت کا قتل تصور ہوگا۔۔۔
انسانی جان بحرحال مقدم ہے چاہے غیر مسلم کی کیوں نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی جنگوں اور غزوات میں انتہائی احتیاط سے ایسے منصوبے مرتب کئے جاتے جن میں کم سے کم تعداد میں خون بہے۔
فتح مکہ بھی ایسے ہی عمدہ منصوبہ بندی سے ممکن بنائی گئی۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ سے مکہ کی طرف جنگ کی نیت سے جانے کا رادہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین حکمت عملی کے تحت محض مسلمانوں کو سفر کی تیاری کا حکم دیا۔
کسی کو علم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے اور کیوں ۔
بنا مقصد بتائے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی فوج اور اردگرد کے قبائل کو بھی ساتھ لے کر روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستوں کی نگرانی پر جاسوس بھی متعین فرمائے تاکہ قریش مکہ کو مسلمانوں کے لشکر کا پتا نہ چلے حتی کہ ان کے سر پہ جا پہنچیں جہاں دشمن ایسی کمال قیادت میں اتنی بڑی فوج دیکھ کر مغلوب ہوجائے ۔
ہفتہ بھر کا سفر طے کر کے مسلمان فوج مکہ کے قریب ایک میدان میں خیمہ زن ہوئی تو انہیں پتا چلا کہ مکہ منزل مقصود ہے ۔
ابو سفیان اس وقت اسلام نہ لایا تھا اور قریش کا لیڈر تھا ۔
مسلمانوں کی اس قدر کثیر تعداد دیکھ کر قریش گھبرا گئے اور صلح حدیبیہ کی بحالی کی کوششیں جو وہ پہلے بھی کرتے رہے مزید کرنےلگے ۔
لیکن چونکہ یہ معاہدہ اسی وقت ختم ہوگیا تھا جب قریش مکہ نے بنی خزاعہ پہ حملہ کیا اسلئے سب کوششیں بے سود رہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میدان میں مسلمانوں کو خوب دور دور پھیلا دیا اور رات کا وقت تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ جلانے کا حکم دیا ۔
یہ ایک ایسی حکمت عملی تھی کہ دشمن کو دور دور تک جب آگ جلتی نظر آئی تو وہ مزید دہشت زدہ ہوگیا ۔
کسی نے کہا کہ شاید بنی خزاعہ نے حملہ کردیا لیکن ابو سفیان نے کہا کہ نہیں ۔۔۔ اس قدر وسیع پیمانے پر آگ جلانا ان کے بس کی بات نہیں یقینا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ہمراہ جنگ کی خاطر آن پہنچے ہیں اسلئے ابو سفیان سخت پریشان ہوا۔
اب یہاں دیکھیں ۔۔۔ مقصد کا حصول وہ بھی بنا خون بہائے کیسے ممکن بنایا گیا ۔
ابو سفیان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی کوشش کی لیکن گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا گیا اور جب اجازت ملی تو حاضر کردیا گیا ۔۔۔
اب یہ ذہن میں رکھیں کہ قریش کا سردار جس نے 8 سال پہلے مسلمانوں کو ہجرت پہ مجبور کردیا تھا آج انہیں مسلمانوں کی قید میں بے بس نظر آرہا ہے ۔۔۔
(جاری ہے )
No comments:
Post a Comment