اسلام نے سکھایا۔۔ والدین کو اف تک نہ کرو۔۔۔ مطلب ان کی کسی بھی بات پہ دل میں برا گمان بھی نہ لانا ۔۔ماتھے پہ شکن تو کیا ان کے سامنے سر تک نہ اٹھانا کہ انہیں لگے تم ان سے زیادہ طاقتور ہوگئے ۔۔۔
بہت سی باتیں صرف احساس کی ہیں۔ احساس کیجئے
میرے ناناجی بہت بوڑھے ہوگئے تو بھول جایا کرتے تھے خصوصا کھانا کھا کر کچھ ہی دیر بعد کہتے ۔۔ آج مجھے کھانا نہیں دینا؟ بھوک لگی ہے ۔۔
میں عموما اپنے کمرے میں کتاب اور قلم سے جڑی رہتی تھی اسلئے بار بار اٹھ کر جانا کبھی کبھی زچ کردیا کرتا تھا ۔ لیکن مجال ہے جو کبھی انکار کیا ہو کہ بار بار روٹی بنا کر نہیں دینی یا کیوں بھوک لگتی بار بار جیسی کوئی بات کریں۔
نانا کو ہم سب پاپا بولتے تھے یہ انگریزی والا پاپا نہی بلکہ پوٹھوہار میں بڑے بھائی کو پاپا یا لالہ بولا جاتا تھا ۔ نانا کو سب پاپا بولتے تھے تو ہم بھی ایسے ہی کہنے لگے یہ اور بات ہے کہ ہمارا لہجہ انگریزی والا ہوا کرتا تو سننے والوں کو PAPA ہی سنائی دیتا
پاپا کو مخصوص انداز سے بنی ہوئی روٹی پسند تھی جو کچھ موٹی اور نرم ہوا کرتی تھی ۔ وجہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کے دانت گر گئے تھے اور نقلی دانتوں سے ان کو درد ہوتا تھا چبانے میں۔
اسی لئے میں ان کے لئے روٹی کچھ موٹی سی اور اچھی طرح الٹ پلٹ کر نرم سی بنایا کرتی تھی ۔
بس پاپا امی سے کہا کرتے تھے کہ چھوٹی سے بنوا کر دو روٹی وہ اچھی بناتی ہے ۔ جس روز میں گھر نہ ہوتی اور امی پاپا کو روٹی بنا کر کھلاتیں ۔۔ پاپا کا موڈ ٹھیک نہ ہوتا بلکہ مجھے شکایت کیا کرتے تھے ۔ تمہاری ماں سے ویسی روٹی نہیں بنتی جیسی تم بنا کر دیتی ہو۔ اسوقت مجھے اپنے کمرے میں رہنے کا ایسا چسکا تھا کہ کئی بار مجھے یہ سب بوجھ لگتا ہے کیونکہ فل ٹائم جاب تھی۔ اب سوچتی ہوں تو شرمندگی ہوتی ہے کہ بچارے کونسا پہاڑ توڑنے کو کہتے تھے ۔ البتہ اس وقت بھی کبھی ان سے گلہ نہ کرتے تھے کہ آپ بھول گئے ۔۔ ابھی تو کھایا ہے کھانا ۔۔۔
پاپا بہت حساس تھے ۔ اکثر خود ہی کہہ دیتے تھے کہ میں بھول جاتا ہوں ۔ تم لوگ تو تنگ پڑ جاتے ہوگے کہ یہ بوڑھا ہر وقت تنگ کرتا ہے ۔ کبھی کہتے مجھے گاوں واپس جانے دو ۔ میں ویاں ٹھیک رہتا ہوں۔ ہم کہتے ۔۔ وہاں کون سنبھالے گا ؟ یہاں تو سب ہیں ناں؟
بلکہ لائے بھی اسی لئے تھے کہ آپ گر گئے ۔۔ کوئی ہڈی وڈی ٹوٹ گئی تو کیا کریں گے ؟
پاپا اپنی صفائی کا بھی بہت خیال رکھتے ۔ رومال کر وقت پاس رہتا ۔ بار بار چہرہ پونچتے رہتے۔ کپڑوں کو دیکھتے رہتے کہ صاف ہیں کہ نہیں۔ یاداشت ختم ہوجانے کے باعث نماز بھول جاتے تھے ۔کئی بار سجدے کر لیے ۔۔ کئی رکعت ایک ہی نیت میں پڑھ جاتے ۔ ساری زندگی نماز کی عادت سے مجبور بچارے پاپا بنا نماز چین محسوس نہ کرتے تھے۔
جمعہ کے روز انہیں بھائی نہلا کر ساتھ مسجد لے جاتا تھا ۔ بڑی مشکل سے بہت دیر لگا کر چند قدم فاصلے پر مسجد میں پہنچتے اور جیسے تیسے نماز پڑھ کر خوشی خوشی واپس آتے۔
ہمارے یہاں سب ناناجی کا بہت خیال کرتے تھے۔ میں خود ان کے ناخن کاٹتی تھی جو بہت سخت ہوگئے تھے اور خوب زور چاہیے ہوتا تھا ایک ناخن کاٹنے کے واسطے ۔اسپیشل کٹر لا کر رکھا ان کے ناخنوں کے لئے ۔
چھوٹے بھائی نے بہت خدمت کی پاپا کی ۔خصوصا جب ان کو نہلانا ہوتا یا بیمار ہوتے تو وہی ان کو ٹوائیلٹ لے کر جاتا تھا ۔
ماموں اگر اپنے گھر لے جاتے تو پاپا چند دن بعد پھر واپس ہمارے پاس ہی آجاتے تھے ۔ وہاں جامن کے پیڑ کے نیچے چارپائی پہ بیٹھے ۔۔ مجھے لہسن کو گوڈی کرتے دیکھتے رہتے اور ساتھ ساتھ بتاتے کہ لہسن کی اچھی طرح گوڈی کردو تو یہ صحت مند پیداوار دیتا ہے ۔
میں کتابوں سے فارغ ہوتی تو لان میں ایک طرف سبزی پھل پھول کی دیکھ بھال میرا مشغلہ تھا۔ لہسن پیاز پالک دھنیاپودینہ بینگن بھنڈی ہری مرچ شملہ توریاں کدو لیموں کڑی پتہ میتھی اور پیٹھا مختلف موسموں میں یہ سب لگائے ہوئے تھے۔ جامن بھی بہت بھر بھر کر لگا کرتے تھے۔
ابو نے انار بھی لگائے بعد میں۔
پپیتا لگایا تھا لیکن پھل ابھی لگا نہ تھا۔
پاپا کو چھوٹا گاوں اس خالی پلاٹ میں بنا دیا تھا ۔ وہ مجھے گاوں کی بہت سی باتیں بتاتے۔ پاکستان بننے کے واقعات اور انگریزوں کے ساتھ اپنی اور اپنے والد اور چچا کی قربت کا تذکرہ کہ کیسے کمپنی سرکار ان کے چچا کو لالچ دیتی رہی کہ ہمارے ساتھ انگلستان چلو ہم تمہارے سارے گاوں کا نقشہ بدل دینگے ۔
امی کے کے نانا بہت ذہین بلکہ فطین انسان تھے۔ اسوقت برصغیر پاک و ہند میں ان جیسا پراعتماد اور ذہین آدمی ان کو نہ ملتا تھا ۔ اسلئے جب تقیسم ہوئی تو وہ ان کو ساتھ لے کر جانا چاہتے تھے کہ ہمارے پروجیکٹ آپ ہی دیکھیں۔ وہ اس زمانے میں بھی خاصے تعلیم یافتہ اور اچھے صاحب علم آدمی تھے۔ ان کی شخصیت کی پراسراریت اور کشش کے بیشمار قصے سننے کو ملتے رہے ۔ خوبصورت اور اونچا قد سرخ و سفید رنگ نہایت عمدہ رکھ رکھاو تھا۔ جیب میں دو رومال رکھتے تھے ۔ ایک منہ صاف کرنے کیلئے اور دوسرا جوتے صاف رکھنے کیلئے ۔ کہتے تھے جوتے پہ پڑی گرد اور منہ سے بہتی جھاگ سخت ناپسند ہے ۔ شاید وہ بھی میری طرح اپنے کمال سے نہی بلکہ مینوفیچر ہی ایسی ہوئے تھے۔ بنے بنائے ۔۔۔ نفیس انسان
میری شادی کے تین ماہ بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا ۔ لیکن جب تک وہ رہے میری وہ چھوٹی سی خدمت کو یاد کرتے رہے ۔
اللہ ان کو جوار رحمت میں جگہ دے۔ آخرت کی منزلوں کو آسان فرمائے۔ حیات ابدی میں ان کو خوب رحمتوں اور نعمتوں سے نوازے ۔ اللہ جملہ مسلمانوں کی روحوں کواطمننان بخشے۔
Thursday, 20 December 2018
پاپا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment