Thursday, 20 December 2018

خط و کتابت

کسی زمانے میں ہم قلم کے ایسے عادی تھے کہ ہر وقت ہاتھ میں پین پنسل ضرور ہوتی تھی ۔۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کچھ یاد آجاتا اور جھٹ سے اسے کاغذ پر منتقل کرنے کے چکر میں پڑے رہتے۔۔
کیا زمانہ تھا کہ لمبے لمبے خط لکھے جاتے اور شدت سے جواب کا انتظار کیا جاتا ۔۔
خود مجھے خط وکتابت کا ایسا جنوں سوار تھا کہ کئی بار خط کا وزن ڈھیر سارے صفحات کے باعث بڑھ جاتا اور خط پلٹ آتا کہ اسے نارمل ڈاک کی بجائے رجسٹری کے ذریعے بھیجا جائے یا کبھی منزل پہ پہنچ کر مطلوب کو جرمانہ بھرنا پڑتا ۔۔۔
مجھے یاد ہے جب ایک بہت قریبی دوست کے والد فوت ہوگئے جو صاحب دانش بھی تھے اور صاحب دل بھی ۔۔۔ ان کی موت کا دکھ سبھی کو تھا۔ مجھے مسئلہ یہ درپیش تھا کہ اب اس دکھ کی گھڑی میں خط کیسے مداوا کرے اس درد کا جو گھرانے پہ شب و روز آتش نمرود کی تپش کی طرح برستا ہے ۔۔۔
پھر کئی روز انکل کی باتیں یاد آتی رہیں اور چند روز بعد میں نے قلم اٹھایا اور پہلی بار بہت مختصر سا خط لکھا ۔۔۔ جس کے پڑھنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں شدت سے تمہارے خط کا ہی انتظار تھا جب پہنچا تو ہم نے ایک ساتھ ہی خط کو پڑھا اور بار بار پڑھا اور پھر اس گھرانے کے ولی منش بھائی جان نے فرمایا ۔۔۔
اس سے بہتر دکھ کوئی کیا بانٹ سکتا ہے انداز تسلی سے دل بڑھ گیا ۔ ابا جان کی موت کا دکھ صرف ہمارے کندھوں پہ نہیں اور بھی اس میت کو کاندھا دے کر ہمارا بوجھ اٹھائے بیٹھے ہیں ۔۔۔۔
مجھے بہت زیادہ نہی بس ایک بات یاد ہے جو اس وقت میں نے لکھی تھی ۔۔۔ کچھ اسطرح تھی۔۔
۔۔۔ اباجی کی وفات کا سن کر سمجھ نہیں آیا کہ آپ نے میری دلجوئی کرنی ہے کہ مجھے آپ کی ؟
کس نے افسوس کس سے کرنا ہے ؟ نقصان تو سب کا ہوا ۔۔۔ برابر !!!
بس ایسی ہی کچھ باتیں تھیں جو محسوسات تھے وہ قلمبند کرکے بھجوادئیے اور آج بھی جب ہم آپس میں پرانی باتیں کریں تو اس خط کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے ۔۔۔
آج سبق لکھ رہی تھی اور اپنی لکھائی دیکھ کر دل جل رہا تھا کہ اس ظالم ٹکنالوجی نے قلم پہ ہماری گرفت کمزور کردی۔۔۔ باوجود کوشش کے حرف قابو میں نہیں آرہے اور نہ ہی قلم فرمانبردار رہا ۔
بے ہنگم لکھائی اور انگلیوں پہ قلم کے نشان ایسے چھپ جاتے ہیں کہ کلے پہ کوئی سخت شے دبا کر رکھنے سے وہاں اس کا نقشہ بن جائے ۔۔۔
اب ان چبی کھڑبی انگلیوں کے ساتھ ایسی بے ترتیب لکھائی دیکھ کر سوچ رہی ہوں کہ دوسروں سے خط و وکتابت کا سلسہ۔بحال کیا جائے ۔۔
ٹکنالوجی کو کم از کم کتاب دشمنی سے روک دیا جائے۔۔۔ کیا۔ہے جو کچھ وقت نکالنا پڑے گا لیکن اس رسم کو بحال کرنا چاہیے ۔۔ ایک تعلق پھر جوڑنا چاہیے ۔۔۔

No comments:

Post a Comment