Thursday, 20 December 2018

ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہيں ذرا
روح محمد   اس  کے بدن سے نکال  دو

دنیا کی حیثیت ہی کیا ہے ؟
جب پہلی بار سنا کہ مومن وہی ہے جس کو اپنی جان مال والدین اور اولاد سے بڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوگی ۔
سوچ میں پڑ گئی کہ یہ۔کیسے ممکن ہے ؟
مجھے تو ماں سے بڑھ کر کسی سے محبت نہیں اور میں کس طرح اپنی جان دے سکتی۔ہوں محض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں؟
یہ بات۔بہت کچی عمر کی ہے تب۔میں سڑکوں پہ کھیلا کرتی تھی اور شاید تیسری چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔
وقت گزرتا گیا یہ حکم جب بھی سامنے آیا میں اندر ہی اندر شرمندگی محسوس کرنے لگی کہ اللہ تو چاہتا ہے کہ۔میں اپنی جان سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کروں لیکن ابھی تک مجھ سے میری جان کا غم نہی جاتا ۔۔۔
اسی شرمندگی میں میں نے اسلامی تعلیمات اور بزرگوں کی صحبتوں کو اختیار کرلیا۔۔
کبھی کوئی محفل ہاتھ آگئی تو کبھی کسی ولی اللہ کی کتاب پکڑ لی۔۔۔ کبھی اصحابہ رضوان علیہ کے واقعات اور اعمال دل پہ ضرب لگانے لگے تو کبھی میرے والدین کا رجحان مجھ پہ اثر انداز ہونے لگا ۔
امی تو باقاعدہ درس اور محفل میلاد کا اہتمام ہر ماہ دو مرتبہ کرتی تھیں ۔
پڑوس میں تبلیغی جماعت والی آنٹی بھی ہر دو ہفتے بعد درس رکھتی تھیں ۔
پہلے میں ایسے مواقع پہ بھاگ نکلتی تھی کیونکہ اس زمانے مائیکل جیکسن میرے حواس پہ سوار رہتا لیکن پھر ہمیں ایک قاریہ مل گئی ۔۔۔
حسین و جمیل ۔۔ نرم و نازک ۔۔ انتہا ئی نفیس طبیعت کی مالک ہماری قاریہ بہت ماڈرن فیملی سے تھی لیکن اس نے دین کی محبت میں ساری رسمیں توڑ کر پردہ اختیار کیا تھا ۔
سائنس میں امتیازی نمبر لے کر وہ ساتھ ساتھ دینی تعلیم حاصل کرتی رہی اور ایک روز دنیاوی تعلیم کو خیر باد کرکے مکمل طور پر دین کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
وہ ایسی خوبصورت شخصیت تھی کہ جب اسے دیکھتے تو آنکھیں جھپکنے کو جی نہ چاہتا ۔۔ وہ بولتی تو ایسے دھیمے دھیمے لہجے سے کہ ہم پوری توجہ سے اس کو سننے کی کوشش کرتے ۔۔۔
تب شاید ہم 15 /16 برس میں تھے جب نئے سرے سے قرآن مجید اور تجوید  سیکھنے مدرسے چل پڑے ۔۔
شروع میں مذاق بنا پھر بہت سی عورتوں نے بھی جوائن کرلیا ۔۔۔
اب ایک طرف مدرسہ کا عمدہ ماحول اور دوسری طرف میجر ۔۔۔
میرے بچپن کا دوست ۔۔ میری طرح مشکل زندگی کا عادی ۔۔۔ محبتوں میں گھرا ۔۔ تنہا شخص!
ہم عشق حقیقی کی گفتگو کرتے تھے ۔۔ گھنٹوں بیٹھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے الفت اور حق پر میجر مجھے لیکچر دیا کرتا تھا ۔۔ تبھی تراب کہیں سے آن ٹپکی ۔۔۔
وہ خود کو فقیر کہتی تھی ۔۔ ساری جسمانی مشقتیں اس پہ ختم تھیں ۔۔ وہ ہنسی ہنسی میں بڑے درد سہہ جاتی تھی۔
گھر بار اور محلے بھر کے کام کسی مشین کی طرح کرنے لگتی تھی ۔۔ وہ میری شاعری سنتی تھی اور اپنی سناتی تھی ۔۔۔
ہم ساحل سمندر پہ بیٹھے مرشد کی بابت گھنٹوں باتیں کرتے رہا کرتے تھے۔۔۔ تب مجھے پہلی بار پتا چلا تھا کہ مرشد کون ہوتا ہے ؟
مرشد کیوں ضروری ہے ۔؟ مرشد کیا سکھاتا ہے اور کہاں تک لے جاتا ہے ؟
لیکن میں نے مرشد نہیں پکڑا ۔۔۔ وہ بھی کہتی رہی لیکن میں انکار کرتی رہی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اپنی جان سے بڑھ کر کرو۔۔۔ میں اب بھی وہاں نہ پہنچی تھی۔
پھر میں ہاسٹل چلی گئی ۔۔۔ وہاں رات دن کے معمولات اور ذکر و ازکار نے میرے دل پہ چوٹ لگادی ۔۔۔
پھر وہی 17/18 برس کی عمر تھی جب مجھے لگا کہ میں اس ہستی سے محبت کرنے لگی ہوں جس کی خاطر مالک دو جہاں نے کئی جہاں بنا ڈالے ۔۔۔ کیوں بھلا؟
کہ دیکھو میرا محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔۔ دیکھو میری محبت کیسی ہے کہ جب کچھ بھی نہ تھا تو میں نے کائنات میں اپنے محبوب کو تخلیق فرما دیا ۔
خود حضرت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ تمہاری عمر کیا ہے،
انھوں نے بتایا کہ ایک ستارہ ہے، وہ کروڑوں سال بعد نکلتا ہے، میں نے اسے کئی بار دیکھا ہے۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ستارہ میں تھا۔
بس۔۔ جب مالک کل کائنات اس عظیم ستارہ نور کی محبت کا اظہار فرماتا ہے تو اس نا چیز کی تخلیق بھی تو اس نے اسی محبت سے فرمائی ۔۔
یہی محبتوں چاہتوں کی گرمی تھی کہ پھر مجھے لگا کہ میری روح بدن کو چھوڑ دے گی جو دل درود و سلام کا ورد ترک کرے ۔۔۔
صبح سے شام کوئی وقت ایسا نہ تھا کہ زبان درود و سلام نہ کہتی ۔۔جہاں زبان رک جاتی وہاں دل جاری رہتا۔
یہی وہ وقت تھا جب مجھے اپنی جان سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوگی ۔۔۔ کسی شے کی کوئی اہمیت نہ رہی ۔۔ تب ہر سنت کو پکڑنے کی کوشش کرتی ۔۔ ہر طرح سے خود کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرانے کی کوشش کرتی تھی۔
اس وقت میں اور آج کے وقت میں فرق آگیا ۔۔ لیکن سچ بتاوں تو جیسی بھی ہوں ۔۔ جہاں بھی ہوں ۔۔۔ جب بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی ہوگی جب بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ پر حملہ کی ہوگی ۔۔ تب میری جان کی کوئی حیثیت نہی ۔۔ تب میری اولاد بھی قربان اور میرے والدین بھی قربان ۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی خاطر نہ کسی شے کا خوف نہ کسی مصلحت کا شکار ۔۔۔
یہ طے ہے کہ اس معاملے میں عشق فرض عین ہے اور یہ محض جذبات نہیں ۔۔
میں نے محبت کا پیچھا کیا ہے ۔۔ میں نے یہ عشق کمایا ہے اور وہ بھی حلال ذرائع سے۔۔
مجھے اپنے روز وشب یاد ہیں ۔۔ ندامت سے سرشاری تک ۔۔۔ کے لمحے یاد ہیں ۔
ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی بات کو محض وقتی نعرہ نہ سمجھیں کیونکہ میں نے اس عشق کی بھٹی میں خود کو گھولا ہے اور اس عشق کی تپش سے یہ محبت کا رنگ چڑھایا ہے ۔۔ یہ برتن تو ٹوٹ جائے گا لیکن رنگ نہیں اترے گا ۔
تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پہ ہم بہت کلئیر ہیں
۔ہم صرف کسی کی نا حق جان لینے کے حق میں نہیں لیکن اگر کسی کی گستاخی ثابت ہوتی ہے تو ۔۔۔۔ اس کے بچانے کی کوشش میں بہت نقصان ہوگا ۔۔
کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا دفاع ممکن نہیں تو پھر ۔۔۔ کچھ بھی ۔۔۔کچھ بھی ناممکن نہیں رہے گا ۔۔
تخت بھی ہلیں گے اور بنیادیں بھی ۔۔ قلعے کے پہریدار بھی مارے جائیں گے اور درودیوار بھی گرائے جائینگے ۔۔۔
اب یہ طے کرنا ریاست کا کام ہے کہ اسی کیا چاہیے ؟
کیونکہ ہم نے تو جان ہتھیلی پہ رکھ لی ۔۔۔ ہماری خاموشی اور مصلحت صرف ریاست کے تحفظ کیلئے تھی جہاں ریاست حق پہ ہو وہاں کوئی مائی کا لال پتہ بھی نہی ہلا سکتا لیکن جہاں بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی ہوگی وہاں صرف ایک ہی نعرہ بلند ہوگا ۔۔۔
فداک ابی و امی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

No comments:

Post a Comment