Wednesday, 18 December 2019

غدار تو تم بھی ہو

بالآخر ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔ ہمارے یہاں ہر دوسرا فرد بات بہ بات کافر قرار دے دیا جاتا ہے اگر کافر نہیں تو پھر گستاخ ۔ اب گزشتہ چند برسوں میں مخالف کو غدار کہہ دینے کا رواج عام ہوگیا۔ المیہ تو یہ ہے کہ معاشرہ الزام لگانے والے سے ثبوت نہیں مانگتا نہ کوئی سزا متعین ہے جبکہ جس پہ الزام عائد کیا جاتا ہے اس کی شامت آجاتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح ثابت کرے کہ وہ مسلمان ہے یا گستاخ نہیں یا غدار نہیں۔ 
اسلام میں ایسے بے بنیاد الزامات کی سخت سزا ہے لیکن ہماری مثال تو یوں ہے نا شکل مومنہ اور کرتوت کافراں۔ بس وہی بات کہ دعوی مسلمانی بس زبانی کلامی۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا تو سنائی مگر الزام سنگین غداری کا عائد کیا جس پر فوج اور عوام دونوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ہر طرف شور اٹھ کھڑا ہوا کہ ایک فوجی جرنیل کو غدار کیسے کہا جاسکتا ہے جبکہ اس کی ساری زندگی ملکی سالمیت اور دفاع میں گزری ہو۔آئی ایس پی آر کا بھی جواب آگیا اور حکومت نے بھی ردعمل کا اظہار کیا۔ 
کچھ دوستوں نے میری نومبر میں لکھی تحریر کا حوالہ دیا کہ اس میں جو لکھا تھا"کیا عدلیہ اپنے پاوں کاٹ کر کھڑی رہ سکے گی" سے کیا مراد ہے؟ پوچھتے ہیں کہ آپ۔کیا جانتی ہیں کہ کیا ہونے جارہا ؟ 
میرے لئے بہت ساری باتوں کا جواب یوں لکھ کر دینا ممکن نہیں کیونکہ بہت ساری تفصیلات ہوتی ہیں اور بہت سارے زاویے ہوتے ہیں جنہیں واضح کرکے آپس میں جوڑنے سے حالات کی تصویر مکمل بنتی ہے۔ اس کے لئے یقینا درست خبر اور حالات و واقعات کو پرکھنے کی صلاحیت درکار ہے جو یقینا اس شعبے میں کام کرنے والے بہت سے افراد کو میسر ہے ۔ میرے لئے ایک خبر سے کئی خبریں نکالنا مشکل نہیں کیونکہ میں پروفائل سڈی کرتی ہوں مزاج اور پریکٹس دیکھتی ہوں ۔ ان ساری باتوں کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ بدلتی صورتحال میں ہوا کے رخ کا خیال رکھا جائے ۔ دبی دبی آوازوں کو غور سے سنا جائے جو آہستہ آہستہ ذہن سازی کرتی ہیں اور پھر بہت سارے ہم خیال مل کر کسی ایک عمل کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ 
اب اس وقت جو صورتحال ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کا مزاج کیسا تھا؟ بات بات پر سوموٹو لینا اور لمبی لمبی تقریریں کرنا۔ وہ یقینا غریب آدمی سے ہمدردی رکھتے تھے لیکن بعض جگہوں پر ضرورت سے زیادہ مداخلت فرماتے تھے۔ ان کے کئی اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا اور بعض کو بے حد سراہا گیا۔ جسٹس آصف کھوسہ بعد میں آنے والے چیف جسٹس تھے اس لئے انہوں نے عوامی ردعمل کا بغور جائزہ لیا اور اسی کے نتیجہ میں شاید انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سوموٹو نہیں لیں گے۔ اس کی بہت ساری وجوہات کے ساتھ ایک اہم وجہ ان کی ذاتی زندگی اور مشاغل ہیں جنہیں خواہ مخواہ مفت میں قربان کرنے کو وہ عقل مندی نہیں سمجھتے۔ جسٹس ثاقب نثار نے رات دن کام کیا حتی کہ ذاتی مصروفیات بھی ترک کردیں وہ بہت سے کام جو شروع کرچکے تھے پایہ تکمیل کو پہنچانا چاہتے تھے کیونکہ وہ آئندہ آنے والے جج کے مزاج سے واقف تھے ۔ میں اس وقت عام فہم بہت سادہ سی باتوں کے ذریعے آپ کو سمجھنا چاہتی ہوں کہ جب آپ کسی خبر کا تجزیہ کرنا چاہیں تو اس کے کون سے پہلو آپ کو مدد دے سکتے کہ آپ اصل حقائق کے قریب تر بات معلوم کرسکیں۔ اب اس فیصلے سے پہلے بھی کئی فیصلے ہوئے اور سارے فیصلوں میں جسٹس کھوسہ کا پروفائل سگنیچر موجود ہے یعنی ان کی شخصیت کی چھاپ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جسٹس کھوسہ ایک آئیڈیلسٹک مزاج کے آدمی ہے جبکہ میرا خیال ہے کہ وہ اس سے زیادہ self centred  ایک خود پسند آدمی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ میری ابزرویشن درست نہ ہو لیکن ابھی تک مجھے ایسا ہی محسوس ہوا کہ انہیں اپنا آپ دیگر سے بہتر معلوم ہوتا ہے اور وہ اس کے جواز کے طور پر اکثر دلائل۔بھی دیتے نظر آتے ہیں۔ بحرحال میں ان سے اس قسم کی فیصلوں کی توقع رکھتی تھی اس لئے مجھے اس فیصلے سے حیرت نہ ہوئی۔ہاں افسوس اس بات کا ضرور ہے کہ انصاف لوگوں کی پسند و ناپسند اور رعب و دبدبا ظاہر کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ اس کیس میں قانونی نکات کو نظر انداز کرکے صرف ایک نکتہ کو اجاگر کروں گی اور وہ ہے کہ عدلیہ خود کو طاقتور ثابت کرتے ہوئے مختلف حلقوں اور اداروں کو سبق دینا چاہتی ہے۔ نواز شریف کو غدار کہا گیا اور باقاعدہ مہم چلوائی گئی۔ جب ان کے حمایتی کہتے تھے کہ وہ اس ملک کے سربراہ رہ چکے ہیں تو جواب دیا جاتا تھا کہ ایک مجرم کی کوئی عزت نہیں اس لئے ایسے جواز نہ گھڑے جائیں۔ آج سابقہ آرمی چیف کے لئے بھی جب آئی ایس پی آر سے بیان آیا کہ مشرف ملک کی خدمت کرتے رہے وہ۔بھلا کیسے غدار ہوسکتے ہیں۔ تو یہاں عدلیہ score settled کرتی ہوئی نظر آئی ۔ 
وہ کہتے ہیں تم جسے چاہوں غدار کہو تو دیکھو ہم نے تم کو بھی غدار قرار دے دیا ۔ بظاہر عدلیہ اپنی امپیونٹی کا فائدہ اٹھا رہی ہے ۔ 
ایک بات نوٹ کر رہے ہوں گے آپ سب کہ ایک طرف سیاستدانوں کو ریلیف مل رہا ہے اور دوسری طرف فوج پہ دباو بڑھایا جارہا ہے تو آخر یہ ماجرا کیا ہے تو میری رائے میں یہ سارا معاملہ آئین میں فوج کے دائرہ اختیار کو محدود کرنے سے جڑ رہا ہے۔ مارشل لاء لگانے میں سنگین غداری جیسی شق  کا اضافہ ہی عدلیہ کے حوصلے بڑھا رہا ہے( جنرل پرویز مشرف کے کیس میں سنگین غداری کی سزا اس لئے بھی نہیں بن سکتی کہ ماضی میں جب انہوں نے ایمرجنسی کا نفاذ کیا تو اس وقت یہ شق آئین کا حصہ نہ تھی اس لئے اب ماضی کے اقدام پر حال میں قانون بنا کر سزا دینا یوں بھی نا سمجھ میں آنے والی بات ہے )
سچ بات تو یہ ہے کہ اس وقت دو ہاتھیوں کی لڑائی جاری ہے۔ عدلیہ کے اختیارات وسیع ہیں جب کہ فوج کی اپنی طاقت کے ساتھ عوام کی مکمل حمایت بھی شامل ہے اس لئے میں پھر کہوں گی کہ عدلیہ نے اپنے ہاتھوں سے پاوں کاٹنے شروع کردئیے ہیں ۔ ایسا نہیں کہ میں عدلیہ کو کمزور دیکھنا چاہتی ہوں بلکہ میں تو عدلیہ کو عدل کی بنیاد پر مضبوط دیکھنا چاہتی تھی جبکہ یہ تو تکبر اور استثنی کی بنیاد پر اپنا آپ دکھانے میں مصروف ہیں۔ جب کوئی راستہ درست اختیار نہ کرے تو انجام بھی اچھا نہیں ہوتا۔
ہمارے ملک میں اصل حکمرانی اور طاقت قیام پاکستان سے ہی فوج کے پاس ہے۔ ہم اگر چاہیں بھی تو اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے گو کہ ہمیں بہت سارے معاملات میں شدید مایوسی ہے اور فوج کے رویے پر شدید تحفظات بھی ہیں کہ وہ اپنی اعلی قیادت کو نوازشات سے مالا مال کرتےہوئے سوچتے تک نہیں کہ یہ وہ ملک ہے جس میں غریب بھوک کے سبب بچے بھی بیچ دیتا ہے جہاں عورت اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کو اپنا تن بیچ دیتی ہے جہاں نوجوان ملازمت نہ ملنے پر مسقبل میں کی مفلسی سے پہلے ہی خودکشی کرلیتا ہے ۔ سوچنا چاہیئے کہ ایسے غریب ملک کے فوجی افسران کیوں آدھے ملک کی زمین پر قابض ہیں اور ہر وقت پلاٹوں اور کاروں کے حصول میں رال ٹپکاتے پھرتے ہیں۔ یقین جانئیے مجھے دکھ ہوتا ہے کہ آخر ایک آدمی کو کتنی دولت چاہیے تاکہ اس کی زندگی اور اس کے بعد اس کے بچوں کی زندگی بنا کسی تکلیف گزر سکے؟ سچ پوچھئے تو ایک کرنل کے عہدے تک ہی فوج بہت کچھ دے دیتی ہے کہ حلال طریقے پہ زندگی گزارنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن اس بہت زیادہ کی چاہت نے فوج کو بہت کمزور کردیا ہے میری نگاہ میں اس وقت فوج میں حب الوطنی سے زیادہ معاشی ترقی کو اہمیت حاصل ہے ۔ یہ بات لکھتے ہوئے مجھے دکھ ہے لیکن میں جانتی ہوں کہ جب تک خامیوں کی نشاندہی نہ کی جائے ان کا تدارک بھی نہیں ہوتا۔
بحرحال اس وقت جو صورتحال ہے اس میں مجھے فی الحال۔تو ٹکراو نظر نہیں آتا عدلیہ یقینا پسپائی اختیار کرے گی لیکن آئیندہ چند ماہ میں فوج اپنی حکمت عملی بدلنے جارہی ہے۔ آئین میں کچھ نہ کچھ ضرور بدلنے جارہا ہے اور آرمی چیف جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع والی پوزیشن جو ابھی تک مشکوک نظر آرہی تھی اس فیصلے کے بعد اس میں تبدیلی واقع ہوسکتی ہے۔ ابھی تک میرا خیال تھا کہ آرمی چیف کو آئندہ چھ / آٹھ ماہ تک عہدہ چھوڑنا پڑ سکتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا کہ ہر قدم منزل کا تعین کرتا ہے اسلئے عدلیہ نے ایک بھونڈی چال چلی جس سے ان کے وقار کے ساتھ ساتھ کردار میں کمزوری نظر آتی ہے ۔ مجھے اس فیصلے میں واضح طور پر قانونی پہلووں کو نظر انداز کرکے کسی طے شدہ معاملے کے تحت فیصلے کی بو آتی ہے اور یہی بات شرمناک ہے کہ ہم انصاف کو قانون کے تقاضوں کے بجائے نفسانی خواہشوں کے مطابق فراہم کرتے آئے ہیں جس کا نقصان ملک اور قوم دونوں کو ہوا اور آج کوئی بھی  اداروں پہ اعتماد کرنے کو تیار نہیں ۔

No comments:

Post a Comment