Thursday, 19 December 2019

میرے خدشات درست تھے؟

رات 2 بج چکے تھے جب امی کی آنکھ کھلی اور انہوں نے مجھے نیند سے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ ٹی وی سکرین پہ ناچتے کیڑوں کو گھورتے تو دیکھا تو بولیں " ابھی تک جاگ رہی ہو؟ سو جاو ۔ صبح پتا چل جائے گا کہ کیا ہوا ۔چھوڑ دو اس ٹی وی کی جان"۔ میں نے ہلکا سا سر ہلایا اور سرگوشی میں کہا "سو جاوں گی پہلے دیکھ تو لوں کہ بندہ کون ہے جس نے ٹیک اوور کیا" میں ابو کے ڈر سے امی کو اشارے کررہی تھی کہ آہستہ بولیں ابو جاگ گئے تو میری شامت آجائے گی کہ ابھی تک کیوں اس کیمرے میں تنہا بیٹھی ہو۔اب انہیں کون سمجھاتا کہ میری چھٹی حس کس بات کا اشارہ دے رہی ہے۔ اس رات 3بجے کا وقت ہوگیا شاید جب اچانک ٹی وی سکرین پہ ناچتے کیڑوں نے ایک شکل اختیار کرلی جسے دیکھتے ہی میرا ماتھا ٹھنکا ۔ جنرل پرویز مشرف مارشل لاء نافذ کرنے کے حوالے سے قوم سے خطاب فرما رہے تھے اور میرے وجدان کی کھلی کھڑکیاں دھڑا دھڑ تباہی و بربادی کے پیغام براہ راست میرے دل و دماغ کو پہنچاتی تھیں۔ 
اگلے روز صبح دیر تک سونے کے بعد نماز ظہر کی بانگ پہ آنکھ کھلی ۔ تھکی تھکی سی اٹھی اور بلیک کافی(ان دنوں مجھے بلیک کافی کی لت پڑی ہوئی تھی) کا مگ اٹھایا اور کافی لے کر پھر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئی۔ سارا دن میری خاموشی کو گھر والوں نے بہت شدت سے محسوس کیا۔ شام کو میجر نے ڈیوٹی سے آتے ہی دروازہ کھٹکا کر میرے لئے پیغام چھوڑا کہ کیانی کو بھیج دیں اوپر (اپر فلور فلیٹ میں )۔ 
میرے جانے تک وہ کپڑے بدل کر نماز مغرب پڑھ چکے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی شرارتی انداز سے مسکرائے ۔ " ہاں بھئی مس کیانی۔ آخر الٹ ہی دیا تختہ بچارے نواز شریف کا  " میں نے انہیں ناگواری سے گھورا تو ہنستے ہوئے بولے " ارے تم ہی تو پیچھے پڑی تھی نواز شریف کے یہ کردیا وہ کردیا اس کا جانا ضروری ہوگیا وغیرہ وغیرہ " وہ ہنس رہے تھے لیکن میرا موڈ خراب تھا۔ 
میں بڑبڑاتی ہوئی بولنے لگی : نواز شریف کے غلط فیصلے اور ساری طاقت اس کے ہاتھ جمع ہونے کے سبب مجھے اعتراض تھا کہ صدر بھی اس کے سامنے بے بس اور ادارے بھی ۔ اس طرح اچھا بھلا بندہ فرعوں بن جاتا ہے اور ان لوگوں کے اندر تو یوں بھی فرعونیت اور تکبر کے جراثیم خاصے زیادہ ہیں عام لوگوں کی بہ نسبت" ہم ابھی باتیں کررہے تھے کہ باقی لوگ بھی آگئے۔ میں بار بار اس خدشے کا اظہار کررہی تھی کہ جنرل مشرف کو دیکھ کر مجھے اچھی فیلنگ نہیں آئی یہ بندہ اس ملک میں تباہی لائے گا ۔ میں بہت خون خرابہ دیکھ رہی ہوں ۔ میری باتیں سن کر سب حیران ہورہے تھے کہ ابھی کل ہی تو اس بندے نے اقتدار پہ قبضہ کیا اور آج مجھے اس میں ہزار خرابیاں نظر آرہی تھیں ۔ 
آنٹی بولیں۔ " تم تو نواز شریف کے خلاف بول رہی تھی ابھی دو دن پہلے کہ اب نواز شریف کو ہٹانا ضروری ہوگیا اس نے یہ کردیا وہ کردیا اور آج تم جنرل کے خلاف بول رہی ہو۔ہمیں تو تمہاری سمجھ نہی آرہی ۔
باجی نے ہنس کر لقمہ دیا: اور نواز شریف کی الیکشن مہم بھی یہی چلا رہی تھی یاد ہے نا ؟ 
"ہاں ہاں ۔۔ ان کو تو جیت کے جشن میں بھی خصوصا انوائٹ کیا گیا تھا ۔۔۔ مہمان خصوصی " اب سبھی مختلف طنزیہ جملے پھینکنے لگے۔
مجھے پتا تھا کہ ان کو میری بات سمجھ نہیں آئے گی میں نے لاچارگی سے میجر کی طرف دیکھا تو ہمیشہ کی طرح انہوں نے شرارت سے میرے پاوں پہ چٹکی کاٹی اور ہنستے ہوئے بولے ۔ بھئی تمہیں اچھا نہیں لگتا تو نہ لگے ہم کون سا تمہاری شادی کروانے لگے ہیں جنرل مشرف سے ۔ اس پر سب نے قہقہ لگایا ۔ میں نے ناراض نظروں سے میجر کو گھورا تو میجر نے میری سرخ ہوتی ناک کی طرف اشارہ کیا ۔" اب تمہارا غصہ ناک پہ چمک رہا ہے" اور سب نے زور زور سے ہنسناشروع کردیا ۔ 
اس روز میں بالکل بھی خوش نہیں تھی ۔ کسی بات کو انجوائے نہیں کررہی تھی اور بالآخر میجر نے بھانپ لیا کہ میری پریشانی غیر معمولی ہے ۔ پھر کچھ دیر انہوں نے سنجیدگی سے میرے خدشات سنے اور مجھے تسلی دی کہ پاکستان کی سلامتی سےمتعلق تو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ پاک فوج کو دفاع کرنا آتا ہے ۔ وطن عزیز کا دفاع مضبوط ہے وغیرہ جیسی تسلیاں دیتے رہے ۔ لیکن میرا دل عجیب گھیراو کا شکار تھا۔ چند روز قبل زور و شور سے نواز حکومت کے خاتمے کو ضروری قرار دینی والی آج مشرف کو اقتدار پر قابض دیکھ کر پہلے سے بھی زیادہ پریشان تھی ۔ معاملہ کچھ ایسا تھا کہ میں کسی کو سمجھا بھی نہیں سکتی تھی۔
پھر 9/11 ہوگیا۔اس روز جب میں کمرے میں داخل ہوئی تو سامنے ٹی وی پر اسی وقت بریکنگ نیوز ابھری ( ان دنوں CNN دیکھا کرتی تھی خبروں کے لئے ) ٹاورز سے جہاز ٹکراتے دیکھتے ہی میرے منہ سے نکلا ۔ یہ کسی جنگ کا آغاز ہے! 
پھر جو کچھ ہوا وہ سب نے دیکھا۔ اس سرزمین پہ اتنا لہو گرا کہ ایک لال تاریخ رقم ہوگئی۔مجھے یاد ہے اچھی طرح سے یاد ہے کہ لال مسجد کے واقعہ کے بعد ہم پہلی بار خودکش حملوں سے متعارف ہوئے ۔کیسا خوف تھا ہر طرف ۔ اف۔۔ کتنا خوفناک ماحول تھا لوگ بازاروں میں جانے سے خوف کھاتے تھے۔ ہر روز بیسیوں لوگوں کے مرنے کی خبر ملتی ۔ 
میرے خدشات درست تھے۔ مشرف ہمارے لئے کوئی اچھا مسقبل لے کر نہیں اترا تھا۔ معاملات کو فہم و فراست کی بجائے طاقت سے ہینڈل کرنے کے سبب ہم نے نقصان اٹھایا۔
میں نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے شاید کسی بھی عمل کی حمایت کبھی نہ کی ہوگی ۔ جب میڈیا کو یکدم آزاد کیا تب بھی اور جب پابندی لگائی تب بھی اختلاف کیا۔ جنرل مشرف بھی انتہا پسند آدمی تھا درمیان کا راستہ تو کوئی رکھا ہی نہیں۔
کتنا نقصان ہوا لوگوں کا جب ایمرجنسی لگائی تھی۔ میری شادی کو چند ماہ ہوئے تھے جب میرے ایک عزیز نے پیٹی بھر کر کروڑوں روپے میرے گھر میں لاکر رکھے کیونکہ جنرل مشرف نے بنک سیل کردئیے تھے ۔ ٹریڈرز کا پیسہ اور ٹریننگ سب رک گیا تھا۔ جن لوگوں نے تنخواہیں دینی تھیں یا جوائنٹ وینچرز تھے انہوں نے بنکوں سے پیسہ نکال کر گھروں میں رکھ لیا تھا۔ بہت لوگوں کا کاروبار رک گیا۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں لیکن اس وقت ملک سے سرمایہ دار بھاگ رہا تھا شاید۔ 
پھر طالبان اور اکبر بگٹی والے معاملے کو بھی انتہا پسندی سے ہینڈل کیا گیا اور خمیازہ ساری قوم نے بھگتا۔ 
بس کیا لکھیں ۔ اب ہم جنرل پرویز مشرف کوہیرو بنا کر پیش کررہے ہیں محض عدلیہ کے ایک بھونڈے فیصلے کے سبب؟ 
ججوں کو خریدنا بھی کون سا مشکل ہے یہاں ۔ کسی کو جائیداد کسی کو بیرون ملک ملازمت تو کسی کو اقتدار میں حصہ دے کر اس کا ضمیر خرید لیا جاتا ہے ۔ 
میں نے بارہا کہا کہ اس پاپی نظام میں سچ کی گنجائش نہیں۔ یہاں کوئی کام جائز طریقے پر نہیں کیا جاسکتا۔ جو کالا بس اسی کا بول بالا۔ 
میرا اعتراض عدالتی فیصلے پر یہی تھا کہ اس کے میرٹ کو پرکھ لیجئے یوں لگتا ہے جیسے جان بوجھ کر ایک مرتے ہوئے شخص کو زندگی دے دی گئی۔ ایک ڈکٹیٹر کو ہیرو بنا دینے کا سہرا عدلیہ کے سر ہے ۔ کیا خبر کیا ملا اس کے عوض ! 

No comments:

Post a Comment