Monday 10 August 2020

ہوٹل روزویلٹ کا معاملہ!

گزشتہ برس دسمبر کے پہلے ہفتے میں ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کا اجلاس ہوا تھا ۔ کمیٹی چئیرمین مشاہد اللہ خان  ( ن لیگ) کی زیر صدارت جعلی ڈگریوں کے حوالے سے(جائزہ کمیٹی سے) پروگریس رپورٹ طلب کی گئی تھی۔اس اجلاس کی رپورٹ میں نے اپنے کالم کے ذریعے شائع کی تھی۔مشاہد اللہ خان ایسے جعلی ڈگری رکھنے والے لوگوں کو نوکری سے نکالنے کی مخالفت کرتے رہے اور نوکری سے نکالنے کی بجائے کوئی اور سزا تجویز دینے پر مضر تھے۔ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو بیروزگار نہ کریں۔مشاہد اللہ خان چونکہ خود نواز دور حکومت میں پی آئی اے کے کرتا دھرتا رہے اور تھوک کے حساب سے بھرتیاں کرتے رہے اس لئے میرا خیال تھا کہ وہ اس وقت بھی اپنے لوگوں کو بچانا چاہتے تھے۔

ن لیگ حکومت کے جانے کے بعد بھی پی آئی اے کی نجکاری توکبھی فروخت کی خبریں اسی طرح گردش میں ہیں جس طرح ہر حکومت کے دور میں ہوتی ہیں،اب پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ایک بار پھر پی آئی اے  کے ساتھ  ساتھ روز ویلٹ ہوٹل کی نجکاری کا معاملہ گرم ہے اور سنا ہے کہ ایوی ایشن ڈویژن کی جانب سے اس کی سمری تیار کردی گئی ہے۔متوقع اجلاس کی صدارت مشیر خزانہ حفیظ شیخ کریں گے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ہوٹل کی نجکاری سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی آمدن متوقع ہے۔بعض لوگ نجکاری کے اس فیصلے کا خیرمقدم کر رہے ہیں جبکہ بعض  پاکستان کے اس قیمتی اثاثے کی فروخت کا منصوبہ قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنا رہےہیں۔ بات یہ ہے کہ جب جب روزویلٹ کا نام آتا ہے کہ عمران خان کے قریبی دوست اور پی ٹی آئی حکومت کے  معاون خصوصی زلفی بخاری کا نام بھی ساتھ ہی سننے میں آتا ہے جن کے متعلق بتایا جارہا ہے کہ وہ بیک گراونڈ میں ا س کے ڈیلرہیں۔

اس سال فروری میں جب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نجکاری کا اجلاس ہوا تو  وفاقی وزیر نجکاری محمد میاں سومرو کی جانب سے یہ بات کہی گئی کہ روزویلٹ ہوٹل بیچا نہیں جا رہا بلکہ لیز پر دینے کی تجویز ہےاور وجہ بتائی گئی کہ پی آئی اے کے پاس فنڈز  اور نہ ہی جہاز ہیں۔ اس وقت وہاں موجود جوائنٹ سیکرٹری ایوی ایشن نے بھی کہاکہ پی آئی اے خسارے کا شکار ہے۔

البتہ یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ اس  سے قبل اس مقصد کیلئے جو ٹاسک فورس قائم کی گئی تھی اس میں وزیراعظم عمران خان کے خاص دوست زلفی بخاری کو بھی شامل کیا گیا تھا جس پر وفاقی وزیر برائے ہوا بازی چوہدری غلام سرور  نے اعتراض کیا تھا کہ ان کی وزارت میں ان کے علم میں لائے بنا ہی  ان کے بندوں کا تبادلہ کردیا جاتا ہے (سابق سیکرٹری ایوی ایشن شاہ رخ کو وزیراعظم نے ان کے عہدے سے راتوں رات ہٹا دیا تھا)اور دیگر لوگوں کو شامل کردیا جاتا ہے، ان کا اشارہ (وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پاکستانی )سید زلفی بخاری کی طرف تھا جنہیں اس کمیٹی میں شامل کردیا گیا تھا جب کہ ان کا تعلق تو سمندر پار  پاکستانیوں کے معاملات سے  ہے۔

روزویلٹ ہوٹل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہر دور حکومت میں ارباب اختیار کی رالیں اس قیمتی اثاثے کے لئے  ٹپکنے لگتی ہیں کہ کب اس سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو بیچا جائے اور اپنا شئیر لیا جائے ۔اس کی اہمیت جاننے کے لئے اس کی مختصر تاریخ کچھ یوں ہے کہ امریکی شہر نیو یارک کے مہنگے ترین علاقے مین ہیٹن میں واقع تاریخی ہوٹلوں میں شمار  ہونے والا  یہ روزویلٹ ہوٹل جس کا افتتاح ؁ ۱۹۲۴ میں ہوا ، ہزار (۱۰۰۰) سے زائد کمروں پر مشتمل اس ہوٹل میں ۵۰ کے لگ بھگ لگژری سویٹس ہیں۔

پی آئی اے نے اپنے سنہرے دنوں میں( 1969 )میں اس ہوٹل کو ایک سعودی شہزادے کی مدد سے لیز پر لیا تھا ، ڈیل کے تحت پی آئی اے اس ہوٹل کو ۲۰سال بعد خرید سکتا تھا اور جب ۹۰ء  کی دہائی میں معاہدے کے تحت پی آئی اے نے  ہوٹل خریدنے کا ارادہ کیا تو ہوٹل کے مالک نے عدالت میں مقدمہ کر دیا کہ طے شدہ رقم مارکیٹ ویلیو سے بہت کم ہے، اس کا بہت نقصان ہوگا۔ لیکن خوش قسمتی سے پی آئی اے کی انتظامیہ معاہدے کی رو سے یہ مقدمہ بالآخر جیت گئی اور ۱۹۹۹؁ میں  یہ تاریخی اہمیت والا ہوٹل مکمل طور پر پی آئی اے کی ملکیت میں آگیا۔سعودی شہزادے کے جو ایک یا دو پرسنٹ شئیرز  تھے وہ بھی لے لئے گئے کیونکہ تقریبا ۹۹ فیصد شئیرز تو پی آئی اے نے پہلے ہی خرید لئے تھے۔

اس کے بعد مشرف دور میں اس ہوٹل کی تزئین و آرائش میں ۶۵ ملین ڈالر خرچ کرکے اسے ایک بلین ڈالر قیمت پر بیچنے کے لئے پیش کردیا گیا لیکن اس وقت امریکی معیشت نازک دور سے گزر رہی تھی جس کی وجہ سے اس کی قیمت کوئی ادا نہ کرسکتا اور یہ پھر سے پی آئی اے کے استعمال میں آنے لگا۔
جنرل مشرف کے بعد  زرداری دور میں بھی اس کو بیچنے کی کوشش کی گئی اور جب نواز شریف دوبارہ اقتدار میں آئے تب بھی اس ہوٹل کو ایک بار پھر بیچنے کے متعلق بازگشت سنائی دی بلکہ یہاں تک سنا گیا کہ نواز شریف نے ہوٹل کا سودہ اپنے قریبی فرنٹ مین میاں منشاءکے ساتھ کر نےکا ارادہ کرلیا ہے۔اس کی قیمت سے چند فیصد نواز شریف نے اپنا کمیشن بھی نکالنے کا پلین بنایاتھا لیکن ان کی حکومت کے حالات خراب سے خراب تر ہونے کے سبب یہ ڈیل بھی نہ ہوسکی۔

اس ساری صورتحال میں پاکستانی عوام یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ملک میں تقریبا سبھی ادارے گھاٹے میں جارہے ہیں تو جو دو چار آنے منافع کی شکل میں کما کر دینے کے قابل ہیں ان کو بیچنا کس کے مفاد میں ہے ؟ روزویلٹ کی طرح پیرس میں بھی ایک ہوٹل منافع کما کر دے رہا تھا جو اب کورونا کے سبب اسی معاشی کشمکش کا شکار ہے ،سنا ہے کہ وزیراعظم کے دوستوں کی عقابی نظر اس پر بھی ہے۔اس کے حوالے سے بھی ہم عوام کو آگاہ کریں گے البتہ ارباب اختیار سےبار پرس کرنا ہمارے اختیار میں نہیں۔

No comments:

Post a Comment